بڑے گھر کی بگڑی اولادیں ہونہار اور ذہین عادل کی تباہی کا باعث بنیں،ڈاکٹر نے مریض سے کئے گئے وعدے کا پاس نہ رکھا اور راز کو راز نہ رہنے دیا ،مریض تباہ ہوگیا
* * * * * *
مصطفیٰ حبیب صدیقی
(پہلی قسط)
(یہ کہانی بھی بڑی عجیب ہے اور نہایت سبق آموز بھی ۔اس سچی کہانی کی تمام سچائیاں جاننے کیلئے میں نے کم ازکم4ماہ لگائے ہیں۔محلے والوں سے شروعات کرنے کے بعد اس کہانی کے مرکزی کردار عادل کے والد ، بھائیوں اور دوستوں سے ملاقاتیں کیں جبکہ والدہ اور بہنیں چونکہ پردہ کرتی ہیں اس لئے اپنی اہلیہ کے ذریعے کچھ معلومات ان سے بھی حاصل کیں۔معالج سے ملا ،حتیٰ کہ بڑی تگ ودو کے بعد عادل سے بھی ملاقات ہوگئی۔عادل ذہنی معذور ہوچکا ہے اور آج کل ایک نفسیاتی اسپتال میں ہے ۔ عادل سے ملنے گیا تو اس پر دورہ پڑا ہوا تھا اور اس نے مجھ پر حملہ کردیا جس سے میں کچھ زخمی بھی ہوا جس کی تکلیف آج ایک ماہ گزرنے کے باوجود محسوس کررہاہوں مگر سچائی جاننا ضرور ی تھا اور پھر لکھنے بیٹھا۔ایک آمریت سے بھرپور گھر میں ذہین ترین اولاد کا کیا انجام ہوتا ہے ہم سب کیلئے سبق ہے۔۔۔آئیے کہانی سنتے ہیں۔)
شفیع الدین صاحب کے 13بچے تھے ۔5بیٹے اور7بیٹیاں۔وہ خود ایک محلے کی ایک کمیٹی کے رکن بھی تھے جو بعدازاں اس کے صدر بنادیئے گئے۔شفیع الدین کو اپنی اصو ل پسندی ،کھرے پن اور حق گوئی کا بڑا زعم تھا بلکہ آج بھی ہے۔گھر میں 13بچے ہونے کے باوجود انکے داخل ہوتے ہی ’’پن ڈراپ سائیلنس‘‘ کی سی کیفیت ہوجاتی تھی۔بچے باپ کو دیکھ کر مسکرا نا بھی بھول جاتے تھے۔ان کا خیال تھا کہ یہی بچوں کی تربیت ہے۔کیفیت یہاں تک تھی کہ بیٹے عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ اپنے جسمانی ساخت میں ہونے والی تبدیلی کا اظہار ایک دوسرے سے بھی نہیں کرسکتے تھے۔شرم وحیاء کے نام پر گھر میں بند اور گھٹا ہوا ماحول تھا۔بڑے 2بچوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور ملازمت کی کوششیں شروع کردیں تاہم انکی شادی کیلئے شفیع الدین صاحب کی کڑی شرائط نے دونوں کو بغاوت پر مجبو رکردیا اور ایک بیٹے نے پسند کی شادی کی اور پہلے ہی روز گھر سے الگ ہوگیا جبکہ دوسرا بیٹا گھر میں رہا مگر باپ کی بے جا سختی کی وجہ سے وہ بھی گھر چھوڑنے پر مجبو ر ہوا ۔ادھر بیٹیوں کی شادی کیلئے خوب سے خوب تر کی کڑی شرائط کی وجہ سے بمشکل 2 بچیاں بیاہ سکیں باقی5میں سے 3کے بالوں میں سفیدی جھلکنے لگی ہے۔شفیع الدین کا سارا زورتیسرے بیٹے عادل پر تھا جو پورے گھر میں سب سے زیادہ ہونہار اور ذہین تھا۔شفیع صاحب کا خیال تھا کہ وہ اس بیٹے کو دین ودنیا کا تمام علم دلاڈالیں گے۔عادل نے حفظ کیا ،عالم کا کورس کیا،درس نظامی سے فارغ ہوا اور پھر میٹرک بھی کیا جس کے بعد انٹر کرتے ہی اسے اسلام آباد کی اعلیٰ یونیورسٹی میں ایل ایل بی شریعہ کیلئے بھیج دیاگیا۔بس یہیں سے ہی اصل کہانی شروع ہوتی ہے۔
عادل ایک ایسے گھر میں پلا بڑھا تھا جہاں باپ کی ایک آواز پر گھر کا ہر فرد کانپنے لگتا تھا۔باپ خو د کو عقل کل سمجھتا اور بچوں کو غلام سے بدتر خیال کرتا تھاجو اپنی مرضی کے بغیر ایک سوئی بھی یہاں سے وہاں رکھنے کو اپنی توہین سمجھا کرتا تھا۔مگر اسلام آبا د کی یونیورسٹی کی کھلی فضاء میں پہنچتے ہی عادل آپے سے باہر ہوگیا تھا۔اس کیلئے یہ آزادی کسی نعمت سے کم نہ تھی اور وہ بھی ایسی نعمت جس کا تصور بھی محال تھا۔اسلام آباد میں عادل نے دل لگاکر پڑھائی تو کی تاہم اس کی دوستی پوش علاقوں کے رہنے والے اور بڑے باپ کے بگڑے ہوئے بیٹوں سے ہوگئی۔عادل نہایت ذہین اور پڑھنے میں تیز تھا اس لئے ہر لڑکا چاہتا تھا کہ اس کو اپنے ساتھ ملاکر رکھے تاکہ امتحان میں وہ ا س لڑکے کا سہارا بن سکے۔عادل جو ایک گھٹن زدہ ماحول میں 16سال کی عمر تک پہنچا تھا وہ اب اتنا کھلا ماحول دیکھ کر خود پر قابو نہ رکھ سکا۔چھوٹے سے گھر میں فرش پر5 بھائیوں کے ساتھ سونے والا عادل ہوسٹل میں نرم گرم بستر پر سوتے ہوتے ہوئے خود کو کسی’’ گلفام‘‘ سے کم نہیں سمجھتا تھا۔دوستوں کے ساتھ بڑی بڑی گاڑیوںمیں گھومنا پھرنا عادل کا معمول بن چکا تھا۔مگر اس کی توجہ اپنی پڑھائی سے نہیں ہٹی تھی۔وہ مسلسل اپنی تعلیم پر توجہ د ئیے ہوئے تھا۔اس دوران بس اتنا ہوا کہ بڑے باپ کی بگڑی اولادوں نے اس متوسط درجے کے نوجوان کو بھی بگاڑ دیا۔وہ پہلے سگریٹ کا عادی ہوا۔جس کے بعد گندی فلموں کا شوقین ہوتا چلا گیا۔معاملہ یہیں تک نہیں رہا بلکہ اس سے آگے بڑھ گیا ۔اس کے کچھ لڑکیوں سے تعلقات استوار ہوئے ۔عادل کے بقول (جو اس نے ہوش وحوا س میں بتایا،یہ ہوش اس پر چند دنوں ہی طاری رہتا ہے مگر پھر دورے پڑتے ہیں)
عادل کا ایک دوست کراچی میں تھا جسے وہ سب کچھ سمجھتا تھا۔ اسے خط بھی لکھا کرتا تھا مگر عادل نے اسے بھی اپنی اس بگڑتی عادت کے بارے میں نہیں بتایاجبکہ اس دوست سے بھی وہ اب نالاں ہے ۔
عادل نے ایک آخری خط اپنے دوست کو لکھا کہ اس نے ایل ایل بی شریعہ میں گولڈ میڈل حاصل کرلیا ہے اور اب واپس کراچی آرہا ہے جہاں اب وہ عملی زندگی کا آغاز کرے گا ۔کراچی واپسی سے ایک دوروز قبل عادل کو اس کے ایک بگڑے دوست نے جو کسی وڈیرے کا بیٹا تھا ایک تحفہ بھیجا ۔عادل خود پر قابونہ رکھ سکا تاہم صبح ہونے تک وہ ایک بیماری میں مبتلا ہوچکا تھا۔
کراچی واپس آنے کے چند روز بعد ہی وہ شدید بیمار ہوگیا مگر اپنے گھر کے بند ماحول اور باپ کے خوف کی وجہ سے کسی کو اصل وجہ نا بتاسکا۔شفیع الدین صاحب اسے ڈاکٹروں کے پاس لے گئے مگر افاقہ نہ ہو ا ،عادل لاکھ چاہتے ہوئے بھی ڈاکٹر کو حقیقت نہیں بتاپارہا تھا کیونکہ اس کے والد ساتھ ہی رہتے اور اسے ڈاکٹر سے علیحدگی میں بات نہیں کرنے دیتے۔اس سوال پر کہ وہ خود ہی ڈاکٹر کے پاس کیوں نہیں گیا۔ اس کا کہنا تھا کہ مجھے ایک انجانا خوف تھا جسے میں خود نہ سمجھ سکا۔ڈاکٹروں نے تجویز کیا کہ شاید اسے کوئی شدید ذہنی تنائو ہے اور اس لئے اسے کسی ذہنی امراض کے ڈاکٹر کو دکھایا جائے۔عادل اب بھی با پ کے خو ف کی وجہ سے انہیں سچائی بتانے سے کتراتا رہا۔حتیٰ کہ بڑے بھائی کو بھی کچھ نہ بتایا۔شفیع الدین صاحب اسے شہر کے بہترین ماہر نفسیا ت کے پاس لے گئے۔عادل میں ایک امید جاگی کہ بس اب وہ اپنی غلطی کا اعتراف ان ڈاکٹر صاحب کے پاس کردیگا اور وہ ا س کے راز کو راز رکھتے ہوئے اس کا علاج کرینگے مگر یہ اس کی خام خیالی تھی۔
ڈاکٹر نے نہایت کم ظرفی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے عادل کی بتائی ہوئی ہر بات اس کے باپ کو بتادی ۔شفیع الدین کا آمریت سے بھرپور دماغ کھول چکا تھا۔عادل جیسے ہونہار بیٹے کو وہ نہایت گھٹیا اور بدترین انسان قرار دے رہے تھے۔نام نہاد دینی ماحول کے اسیر باپ پر دورہ پڑچکا تھا۔جس کے بعد عادل کو گھر میں جوان بہنوں کے سامنے پیٹا گیا۔یہاں تک کے پورے گھر کو معلوم ہوگیا کہ عادل سے کیا غلطی ہوئی ہے۔عادل نے اپنی بہنوں کے سامنے ذلیل ہونے پر شدید ذہنی تنائو محسوس کیا اوروہ واقعی ذہنی توازن کھونے لگا۔باپ نے اس وقت بھی ہوش کے ناخن نہ لیے بلکہ اپنی آمریت بھرے جذبے کو تسکین دینے کیلئے عادل کو سمجھنے کے بجائے اسے سب سے الگ کردیا۔ایک کمرے میں بند۔چھوٹے بھائی جن کے سامنے عادل مثا ل تھا اب وہ باپ کے اشارے پر عادل پر ہاتھ اٹھانے لگے۔وہ بہنیں جو جان چھڑکتی تھیں وہ کترانے لگیں ۔انہیں یہ خوف دلایاگیا کہ عادل تم پر بھی حملہ کرسکتا ہے ۔عادل واقعتا پاگل ہونے لگا۔باپ کے غصے اور آمریت بھرے ذہن کو ابھی تسکین نہیں پہنچی تھی وہ عادل کو دوبارہ نفسیاتی اسپتال لے گئے جہاں اسے بجلی کے جھٹکے دیئے جانے لگے۔وقت تیزی سے گزرنے لگا اور عادل مزید بدظن ہوتا چلاگیا۔وہ لڑکا جو پورے محلے اور خاندان کی آنکھ کا تارا تھا اب دھتکارا جارہا تھا۔باپ جو اپنے بچے کی غلطی پر اس کی انگلی تھام کر اسے سہارا دیتا ہے وہی اپنی سب سے قیمتی اولاد کو محض اپنی انا کی تسکین کیلئے دلدل میں دھکیل رہا تھا
(باقی آئندہ)
محترم قارئین !
اردونیوز ویب سائٹ پر بیرون ملک مقیم پاکستانی،ہندوستانی اور بنگلہ دیشیوں کے انٹرویوز کا سلسلہ شروع کیاگیا ہے،اس کا مقصد بیرون ملک جاکر بسنے والے ہم وطنوں کے مسائل کے ساتھ ان کی اپنے ملک اور خاندان کیلئے قربانیوں کو اجاگر کرنا ہے،آپ اپنے تجربات ،حقائق،واقعات اور احساسات ہمیں بتائیں ،ہم دنیا کو بتائیں گے،ہم بتائیں گے کہ آپ نے کتنی قربانی دی ہے ،آپ کے تجربات سے کیوں نا دوسرے بھی فائدہ اٹھائیں۔۔تو آئیے اپنی ویب سائٹ اردو نیوز سے منسلک ہوجائیں۔۔ہمیں اپنے پیغامات بھیجیں ۔۔اگر آپ کو اردو کمپوزنگ آتی ہے جس کے لئے ایم ایس ورڈ اور ان پیج سوفٹ ویئر پر کام کیاجاسکتا ہے کمپوز کرکے بھیجیں ،یا پھر ہاتھ سے لکھے کاغذ کو اسکین کرکے ہمیں اس دیئے گئے ای میل پر بھیج دیں جبکہ اگر آپ چاہیں تو ہم آپ سے بذریعہ اسکائپ ،فیس بک (ویڈیو)،ایمو یا لائن پر بھی انٹرویو کرسکتے ہیں۔
ہم سے فون نمبر 0966122836200 ext: 3428۔آپ سے گفتگواردو نیوز کیلئے باعث افتخار ہوگی۔۔
ای میل:[email protected]