ہمارا خاندانی نظام مغرب کا خاص ہدف ہے، وہ اس کا شیرازہ بکھیرنے کیلئے خواتین کو اکساتے ہیں، ان کے نزدیک روشن خیالی یہ ہے کہ مسلمان اپنی شناخت سے دستبردار ہو جائیں
عائشہ زکریا
کائنات کے آغاز سے قبل رب تعالی نے آدمؑ (اپنے خلیفہ اور نائب) اور ان کی ساتھی حضرت حو ا ؑ کی تخلیق کی ۔ان دونوں کو آزمائش کی غرض سے جنت میں رکھا گیا اور حکم دیا گیا کہ ایک خاص درخت کے قریب نہ جانا لیکن شیطان نے اس درخت کی ترغیب دے کر انھیں رب کے حکم کی پیروی سے ہٹا دیا۔قرآن میں ارشاد ہے:جسکا ترجمہ یہ ہے۔ "آخرکار شیطان نے ان دونوں کو اس درخت کی ترغیب دے کر ہمارے حکم کی پیروی سے ہٹا دیا اور انھیں اس حالت سے نکلوا چھوڑا جس میں وہ تھیــ" (سورہ بقرہ)وہ ساتر حالت میں جنت میں مقیم تھے لیکن جوں ہی انھوں نے اس درخت کا پھل چکھا ان کے ستر ایک دوسرے کے سامنے کھل گئے اور وہ درختوں کے پتوں سے خود کو چھپانے لگے۔ انسان کی فطرت میں رب تعالی نے حیا کا عنصر رکھا ہے اور آدمؑ و حواؑ کو انسان بنایا گیا۔یہ ان کی 'حیا ــ' ہی تھی جس کی وجہ سے وہ خود کو پتوں سے چھپا رہے تھے۔'حیا' کا درس ہمیں صرف اسلام سے ہی نہیں بلکہ قبل از اسلام بھی ملتا ہے۔
حیا کا تعلق مسلمان ہونے سے نہیں بلکہ انسانیت سے ہے لیکن آج ہم نظر ڈالیں تو پوری کائنات میں کوئی بھی ایسی مملکت موجود نہیں جو کلی طور پر حیا کے تقاضوں پر چلتی ہو۔جہاں کے شہری بے حیائی سے بالاتر ہوں۔مغربی معاشرے کی بات کی جائے تو وہاں انتشار عروج پر پہنچا ہوا ہے،ان کا خاندانی نظام تباہ ہوگیا ہے لیکن اپنی مادی قوت کے سہارے وہ تہذیبی میدان میں بھی برتری حاصل کرنا چاہتے ہیں اور ان کا خاص ہدف ہمارا خاندانی نظام ہے۔ہمارے خاندانی نظام کا شیرازہ بکھیرنے کے لئے وہ خواتین کو اکساتے ہیں کہ اسلامی تہذیب کے قوانین میں تم پر ظلم و زیادتی روا رکھی گئی ہے،تمہیں پابند اور غلام بنا کر رکھا گیا ہے۔تم ان پابندیوں کو توڑو گی تو تمہیں آزادی نصیب ہوگی حالانکہ اسی آزادی سے ان کا خاندانی نظام تباہ ہو چکا ہے۔سنگل پیرنٹ چائلڈ (SINGLE PARENT CHILD)کی تعداد بڑھتی جارہی ہے ۔ امریکہ کے بارے میں ایک رپورٹ آئی ہی کہ سیاہ فام باشندوں میں 70% اور سفید فام میں 35% بچے سنگل پیرنٹ ہیں اور ان کے دانشوروں کا کہنا ہے کہ اگر سفید فام لوگوں میں بھی سنگل پیرنٹ بچوں کا تناسب اسی رفتار سے بڑھتا گیا تو ہمارا معاشرہ تباہ ہو جائے گا۔
عالم اسلام کی بات کی جائے تو ہر ترقی و غیر ترقی یافتہ ملک میں بے حیائی عام ہے۔ پاکستان میں میڈیا کو دیکھا جائے یا گلی محلوں کو ہر جگہ عریانی ہی نظر آتی ہے۔بازاروں سے لے کر سائن بورڈز تک ،ٹی وی سے لے کر نیٹ اور سوشل میڈیا تک عورت کی عزت کو تار تار کیا جارہا ہے ۔ہماری معیشت عورت کے وجود کی موجودگی سے چلنے لگی ہے ۔ کھانے کی چیزوں سے لے کر بائیک کے اشتہار تک ہر جگہ پروڈکٹ سے زیادہ عورت کو بیچا جارہا ہے۔جس عورت کے مطابق شاعرِمشرق علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں !
بتول باش و پنہاں شو ازیں عصر
کہ در آغوش شبیر دے ؓ بگیرے
بتول بن جائو اور اس زمانے کی نظروں سے چھپ جائو کہ تمہاری گود میں پھر ایک حسین ؓ پرورش پاسکے۔
ہمارا میڈیا طے کرتا ہے کہ ہمیں کب ،کیسے اور کس لباس اور فیشن کا انتخاب کرنا ہے۔ہمارے ڈرامے کسی اسلامی مملکت کی عکاسی کرنے کے بجائے فحاشی و بے حیائی کو فروغ دینے میں روز بروز ترقی کرتے جا رہے ہیں۔ہمارے تعلیمی معیار کا یہ عالم ہے کہ او لیول میں تیسری جماعت کے نصاب میں داستانِ عشق و محبت پڑھا کر ننھے ذہنوں میں بے حیائی ڈال کر انھیں گمراہ کیا جارہا ہے ۔بعض اسکول اور کالجوں کے یونیفارم اور مخلوط ماحول بھی اس میں اپنا کردار ادا کر ر ہے ہیں۔ یہ ملک کلمے کی بنیاد پر حاصل کیا گیا تھا اور جس بے حیائی کو مٹانے کیلئے نبی آخر الزماں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا گیا ان کے طریقے کو چھوڑ کر ہم آج میڈیا پر دکھائے جانے والی چیزوں کو اپنانے میں فخر محسوس کرتے ہیں ۔تہواروں اور شادی بیاہ کو سادگی سے کرنے کے بجائے مغربی تہذیب کے دلدادہ ہوئے جا رہے ہیں اور جو کچھ حیا معمولِ زندگی میں باقی رہ جاتی ہے وہ یہاں ختم کر دیتے ہیں۔اس وقت مغربی استعمار سے زیادہ ہمیں سب سے بڑا خطرہ نظریاتی اور ثقافتی میدان میں در پیش ہے۔ وہ ہمارے عقائد اور ایمان کو کمزور اور ہماری تہذیب و ثقافت کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں ۔روشن خیالی کے نام پر مسلمانوں سے کہا جا رہا ہیکہ تم ہمارے کلچر کو قبول کرلو۔ ان کے خیال میں روشن خیالی یہ ہے کہ مسلمان اپنی شناخت سے دستبردار ہو جائیں اور قرآن و سنت کے قوانین کو تبدیل کر دیا جائے۔ یہی وہ وقت ہے جب ہمیں ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور اپنی آنکھوں پر سے آزادی اور ذہنوں پر سے غلامی کا پردہ ہٹا کر بے حیائی اور عریانی سے نکل کر 'حیا 'کا دامن تھام لینا چاہئے تاکہ ہماری اصل کے ساتھ انسانیت کی بقاء بھی قائم رہ سکے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭