Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جمہوریت کی بلی چڑھا دی گئی

ان پر نواز شریف کا اعتماد کہاں جائیگا، کیا خاندان میں دراڑیں پڑینگی، کیا پارٹی شکست و ریخت کا شکار ہوگی؟
صلاح الدین حیدر ۔۔ بیورو چیف ۔ کراچی
شریف برادران نے آپس میں عہدے بانٹ کر جمہوریت کا قتل کردیا۔ بڑے میاں جو مجھے کیوں نکالا کے نعرے کے بعد اب پی سی او ججوں کی باتیں کرتے ہیں، اُنہیں غالباً یقین ہوگیا تھا کہ وہ عمر بھر کے لیے سیاست سے بے دخل کردیے جائیں گے، عافیت اسی میں جانی کہ پہلے ہی جان چھڑا لی جائے اور چھوٹے بھائی شہباز شریف کو فی الوقت تو عبوری وزیراعظم کے عہدے کیلئے نامزد کیا، لیکن 8 مارچ کو پارٹی کے مجلس عاملہ کے اجلاس میں اُنہیں باقاعدہ (ن) لیگ کا صدر چن لیا جائے گا۔ کوئی انوکھی بات نہیں۔ یہاں تک تو سب ٹھیک ہے۔ بہت ساری پارٹیوں میں ایسا ہی ہوتا ہے، موروثی سیاست کی کون پروا کرتا ہے، بے معنی سا لفظ بن کر رہ گیا ہے۔ پُرانی اقدار تو اب قبروں کی آماجگاہ ہیں۔ اندھا بانٹے ریوڑیاں اپنوں اپنوں کو، پُرانی مثال ہے مگر آج بھی صادق آتی ہے۔ گلے ملے گئے، مبارک سلامت کی صدائیں بلند ہوئیں، مریم نواز تک نے چاچا کے سینے پر سر رکھ کر مبارک باد دی۔ گھر کی دولت گھر میں ہی رہی۔ بہت اچھا ہے۔ ایسا ہی رہنا چاہیے۔لیکن جو بات قابلِ غور ہے وہ یہ ہے کہ نواز شریف نے اپنی ذمے داریاں بھائی کے سپرد کرتے وقت دو جملے کہے کہ میرا پیغام دُنیا تک پہنچادینا، مطلب یہ کہ پاکستان میں ججوں کے پاس بھی انصاف نہیں ہے، پی سی او یا Provisional Constitution Order کے تحت حلف وفاداری اُٹھانے والے جج کی حیثیت اُن کی نظر میں کوئی نہیں۔ مان لیتے ہیں کہ سب غلط ہے، لیکن بھئی یہ تو بتادو کہ پاکستان میں کون سی بات صحیح ہوتی ہے۔جو اپنی مرضی میں آئے کرو، کون پوچھے گا۔ تو پھر شکوہ کیسا۔ جس کا دل چاہا اُس نے وہی کیا۔ قانون، قواعد گئے بھاڑ میں۔ یہ تو مجبوروں، لاچاروں کے لیے بنایا جاتا ہے، اشرافیہ تو الگ تھلگ ہے۔ جو حکم آپ کا ہوجائے اُس پر تالیاں بجانا ضروری ہیں۔ یہی نواز شریف کے دربار میں ہوتا رہتا ہے اور شاید اُن کی زندگی تک ہوتا رہے گا۔ اگر اُس کے بعد بھی ہو کچھ عجیب نہیں، مریم اور شہباز جن کا کردار فی الحال کوئی خاص نہیں، اُن کی باری جب آئے گی تو دیکھا جائے گا۔ انگریز بہت چالاک ہے، ایسے ایسے جملے کہہ گیا جن کی نظیر نہیں ملتی، ایک تو یہی ہے کہ Man proposes, God disposes۔ اردو زبان میں اگر نعم البدل ڈھونڈا جائے تو قریباً قریباً واحد یہی جملہ نظر آتا ہے کہ سامان سو برس کا پل کی خبر نہیں۔ تو بناتے رہو پروگرام لمبے چوڑے، کس نے منع کیا ہے۔ ہاں ایک ضروری اور انتہائی اہم بات غور کرنے کی ہے۔ نواز شریف کا بیانیہ کہ PCO جج کی کوئی حیثیت نہیں۔ اسلئے اُن کے فیصلوں کو بھی اہمیت دینا بیکار ہے۔شاید شہباز شریف استعمال نہ کرپائیں۔ وہ تھوڑے سے سلجھے ہوئے دماغ کے شخص ہیں۔ اُن کا فلسفہ اور ہے۔ اُنہوں نے آج تک کسی جج، کسی عدالت کے خلاف کچھ نہیں کہا، بلکہ ایک انٹرویو میں اُن سے بار بار پوچھنے پر جھلاگئے اور اینکر پرسن سے کہا کہ آپ مجھے عدالتوں کی طرف کیوں گھسیٹنا چاہتے ہیں، میں عدالت کے خلاف کچھ نہیں کہوں گا، آپ سوال کریں، مجھے کانٹوں میں مت گھسیٹیں۔ اب دیکھنا یہی ہے کہ کیا چھوٹے میاں بڑے بھائی کا مان رکھتے ہیں یا اپنی ہی بات پر مُصر رہیں گے۔ اُمید تو یہی ہے کہ وہ کبھی بھی عدالتوں کے خلاف نہیں بولیں گے۔ پھر کیا ہوگا، نواز شریف کا اعتماد کہاں جائے گا، کیا خاندان میں دراڑیں پڑیں گی۔ کیا پارٹی شکست و ریخت کا شکار ہوگی، ابھی تو (ن) لیگ سینیٹ کے انتخابات سے ہی باہر ہوئی ہے، اُس کے 15 اُمیدوار آزاد حیثیت میں لڑیں گے، (ن) لیگ کا نام منتخب ہونے کے بعد بھی استعمال نہیں کرپائیں گے، تو دوسرے معنوں میں تو وہ مادرپدر آزاد ہوں گے، جہاں جائیں جس کو ووٹ کریں کوئی روکنے والا نہیں۔ اُن پر تو کوئی پابندی اور قید نہیں تو پھر نواز شریف کا سینیٹ میں اکثریت لینے کا خواب تو چکنا چُور ہوجائے گا۔ اﷲ کرے نہ ہو، لیکن حالات یہی بتاتے ہیں۔ اگر یہ کہاجائے کہ مسلم لیگ (ن) جو دراصل وزیراعظم محمد خان جونیجو کو اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد  قبضہ کرلی گئی تھی، ڈاکٹر محبوب الحق تو اسٹیج پہ ڈانس کرتے پھر رہے تھے اور نواز شریف صاحب نے اقتدار کی رسّی بغیر چون و چرا اپنے ہاتھ میں لے لی۔ جنرلوں اور پی سی او ججوں کو بُرا بھلا تو کہا جاتا ہے، ذرا ماضی کی طرف مُڑ کر دیکھ لیں، ان کا اپنا کردار کیا تھا۔ پنجاب کے اُس وقت کے ملٹری گورنر اور آئی ایس آئی کے چیف جنرل جیلانی نے انہیں تجارتی شعبے سے اُٹھا کر پنجاب کا وزیر خزانہ لگادیا۔ 1985 میں جنرل ضیاء الحق کے غیر جماعتی انتخابات میں یہ وزیراعلیٰ بنے اور پھر اُن کی شہادت کے بعد 1988 میں دوبارہ اسی عہدے پر براجمان ہوئے، لیکن اُن کی وزیراعظم بے نظیر سے ٹھن گئی اور اُنہوں نے پنجاب میں آنے والے وزیراعظم کو پروٹوکول دینے سے انکار کردیا۔ صوبے اور وفاق میں محاذ آرائی شروع ہوگئی۔ بے نظیر نے وزیراعظم کی حیثیت سے نواز شریف کے چیف سیکریٹری یا پرنسپل سیکریٹری جو وفاق کے ملازم تھے، نے لاہور سے اسلام آباد ٹرانسفر کیا، نواز شریف نے صاف جواب دے دیا۔ کیا یہ جمہوریت تھی، شاید نواز برانچ جمہوریت تھی جس پر وہ آج تک اعلیٰ و ارفع نظر آتے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق کے زیر سایہ پلنے والے نواز آج ججوں کی بات کرتے ہیں۔ اُنہیں پی سی او ججوں کے سامنے حلف وفاداری اُٹھانے پر طیش میں آجاتے ہیں تو آپ نے خود ایسا کیوں کیا، ہاں یہ اور بات کہ اُن کی سمجھ بوجھ میں لوگ ماضی کو جلدی بھول جاتے ہیں۔ عوام بھولتے نہیں، اگر اپنی لاچارگی کی وجہ سے خاموش رہتے ہیں تو یہ علیحدہ بات ہے۔ آج میرا دل کیوں مُصر ہے کہ میں آپ کو ذرا دیر کے لیے آئینہ دِکھادوں۔ آپ نے اُس وقت کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سجاد حسین شاہ سے جھگڑا مول لیا، بات آگے بڑھ گئی تو سپریم کورٹ پر حملہ کرواڈالا۔ طارق عزیز، مشاہد حسین حملہ کرنے والوں میں شامل تھے، اُس وقت کی فوٹیج شاہد ہیں، کوئی غلط بات نہیں کہہ رہا۔ اُس وقت کے آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت  نے ایک جگہ تقریر کی جس میں اُنہوں نے قومی سلامتی کی کونسل کی تجویز دی تھی کہ سویلین اور ملٹری کے درمیان گفتگو کا سلسلہ جاری رہے۔ نواز شریف کو یہ بات بُری لگی کہ اُن کے خیال کے مطابق پالیسی بیان صرف وزیراعظم دے سکتا ہے۔کسی آرمی چیف کو اس کا حق نہیں ہے۔ جنرل جہانگیر کرامت کو مستعفی ہونا پڑا۔ جنرل آصف سے بھی اُن کا جھگڑا ہوا، جنرل اسلم بیگ سے ہوا، کون ہے ایسا اس لمبی چوڑی فہرست میں جس سے اُنہوں نے جھگڑا مول نہ لیا۔ نواز شریف’’ مجھے کیوں نکالا‘‘ کہنے سے پہلے کاش گریبان میں جھانک لیتے تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ نواز شریف کا سارا زور مطلق العنانی پر ہے۔ کون نوٹس لے گا کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔ اب آخر میں صرف یہی بات دہرانا چاہتا ہوں کہ شہباز شریف وزیراعظم بننے کے بعد اپنی ٹیم بنائیں گے، اپنی مرضی اور مزاج کے مطابق کام کریں گے، بھائی کے کہنے میں موسلی میں سر نہیں ڈالیں گے، ان کا ہمیشہ سے ہی وتیرہ مصالحانہ ہی رہا ہے۔ تو پھر دونوں بھائیوں کے بیچ میں اختلاف ہوگا، لگتا تو ہے لیکن واﷲ اعلم بالصواب۔ 
٭٭٭٭٭٭٭٭
 

شیئر: