پردیس میں مقیم پاکستانیوں کو بخت کے لحاظ سے ہم کم از کم 3واضح حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ ایک وہ جو 2سال کے بعد 2ماہ کیلئے وطن جاتے ہیں۔ انہیں2سالہ تبدل دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔دوسرے وہ ہیںجو ہر سال ایک ماہ کیلئے وطن کا چکر لگاتے ہیں۔ یوں انہیں سالانہ تبدیلی کا نظارہ کرنے کا موقع میسر آتا ہے اور تیسرے وہ ہیںجو ہر سال 2مرتبہ15،15دن کیلئے وطن عزیز کا دورہ کرتے ہیں۔ اس تناظر میں ہم اِن خوش بختوں میں شامل ہیں جنہیں وطن عزیز میں ’’ششماہی تغیرات‘‘کا بغور جائزہ لینے کی سہولت میسر ہے۔ہم نے کیا تغیرات دیکھے، اس حوالے سے مختصر ترین پیرائے میں جامع ترین مدعا بیان فرمانے کی سعی کی جا رہی ہے۔ معاملہ توجہ طلب ہے:
ستمبر 2017ء میں ہم اپنے وطن میں شہروں کی دلہن ’’کراچی‘‘ اور شہروں کے دولہا’’اسلام آباد‘‘کے علاوہ شہروں کی ساس ’’لاہور‘‘گئے اور وہاں جا بجا موجود اپنی خالائوں اورپھوپھیوںسے ملے۔ ہم دیکھ کر حیران ہوئے کہ سب نے ایسے چوڑی دار پاجامے زیب تن کر رکھے ہیں جن میں چوڑیاں نہیں ۔یہاں ہم اپنے نوخیز قارئین کیلئے یہ امر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ چوڑی دار پاجامہ ماضی کا ایک ایسا پہناوا ہے جو ٹانگوں میں پہنا جاتا ہے۔ یہ پنڈلیوں سے چمٹا ہوااور گھٹنوں سے اوپر سمٹا ہوا ہوتا ہے ۔ اس میں 9انچ کی پنڈلی کے لئے 21انچ لمبا پائنچہ ہوتا ہے جسے ٹخنے سے اوپر اور گھٹنے سے نیچے رکھا جاتا ہے۔اس طرح 12انچ لمبا زائد پائنچہ سلوٹوں کی شکل میں پنڈلی پر موجود رہتا ہے۔ ان سلوٹوں کودور سے دیکھیں تو ایسا لگتا ہے جیسے پنڈلی پر چوڑیاں چڑھا رکھی ہیں۔ اسی مناسبت سے اس پاجامے کو چوڑی دار کہا جاتا ہے۔ بہر حال ہم نے اپنی تمام محرم خواتین کو ایسے ہی بے چوڑی والے چوڑی دار پاجامے پہن کر اتراتے ہوئے دیکھا تو حیران ہو کر چھوٹی خالہ سے پوچھ لیا کہ یہ پاجامے کیاخواتین کیلئے مفت تقسیم کئے گئے ہیں ، صنف نازک نے تمام پہناوئوں کو خیر باد کہہ کر بن چوڑی کے پاجامے زیب تن رکھے ہیں۔ ہمارے چھوٹی خالہ نے ہمارے گال پر ’’چپت نسوانی‘‘ رسید کرتے ہوئے کہا کہ’’ اے بلد میں رہنے والے نابلد، یہ پاجامہ نہیں ’’ٹائٹس‘‘ کہلاتی ہیں۔چند ماہ قبل ایک ٹی وی ڈرامے کی ہیروئن نے اسے پہنا تھا، بس اس کی دیکھا دیکھی دوسریوں نے بھی پہننی شروع کر دی اور پھر مانگ میں اضافہ ہوا تو بازاروں اور بوتیکس میں بھی یہی دکھائی دینے لگی۔ وہ کہتے ہیں ناں کہ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔ اسی کے مصداق جب خواتین نے اپنے ارد گرد ایسی ہم صنفوں کو دیکھا کہ جنہوں نے ’’ٹائٹس‘‘ پہن رکھی تھیں، تو انہوں نے بھی پہننا شروع کر دیں اور نتیجتاً یہ ’’مقبول فیشن‘‘ کی شکل اختیار کر گئیں۔بس یوں سمجھ لو کہ جیسا ماحول ، ویساحلیہ۔
خالہ کی باتیں سن کر ہم کیا کہتے،بس انگشتِ حیرت دانتوں میں دباکررہ گئے۔وقت گزرتا گیا۔2018ء آیا، جنوری تمام ہوا، فروری کی آمد ہوئی۔ ہم پھر’’تھیلا‘‘ اٹھا کر عروس البلاد پہنچ گئے۔ وہاں سے دیگر شہروں کے دورے پر روانہ ہوئے ۔ حسب سابق اپنی تمام محرم خواتین سے ملاقاتیں، چیتیں باتیں کیں۔عجیب بات یہ ہے کہ اس مرتبہ بھی ہمیں اپنی ’’انگشتِ حیرت‘‘دانتوں میں بھینچنا پڑی کیونکہ اب وہ ٹائٹس ہمیں خال خال ہی دکھائی دیں۔ ان کی جگہ ایسا پہناوا نظر آیا جس کا پائنچہ ٹخنے سے اوپرتو خوب کشادہ ہوتا ہے تاہم پنڈلی کو مستور کرتے ہوئے گھٹنے تک پہنچتے پہنچتے اس کی چوڑائی میں کمی واقع ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ ہم نے یہ حیرت انگیز لبادہ دیکھ کر پھر اپنی چھوٹی خالہ سے استفسار کیاکہ آخر ہمارے ہاں کی صنف نازک کو قرار کیوں نہیں۔ 6ماہ قبل کیا تھا اور آج کیا ہے؟انہوں نے شرارتی انداز میں ہمارا کان مروڑتے ہوئے بائیں گال پر دائیں جانب سے’’نسائی طمانچہ‘‘جڑتے ہوئے کہا کہ در اصل ٹائٹس آج کل’’ تغرر‘‘ کے مرحلے سے گزر رہے ہیں۔ خالہ کے منہ سے لفظ تغرر سن کر ہمارا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ ہم نے کہا کہ یہ تغرر کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ کسی بھی جامے کی وہ کیفیت کہ جس میں وہ پھیلنا شروع کر دے اور انجام کار غرارے کی شکل اختیار کر لے، ’’تغرر‘‘ کامرحلہ کہلاتا ہے۔ فی الحال ٹائٹس کی جگہ نیم غرارہ نما پہناوا مقبول ہو رہا ہے۔ ممکن ہے کہ جب تم آئندہ پاکستان آئو اس وقت تک ٹائٹس، تغرر کے عمل سے گزر کر مکمل غرارہ بن چکی ہوں۔میں نے بھی یہی نیم غرارہ نما لباس زیب تن کیا ہے کیونکہ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔ آپ کو علم ہونا چاہئے کہ زندگی کے ہر شعبے میں خربوزے موجود ہیںخواہ وہ کاروبار کا شعبہ ہو، تعلیم کا شعبہ ہو، کھیل کا شعبہ ہو یا خاندان ہو، ہر جگہ خربوزے موجود ہیں جو ایک دوسرے کو دیکھ کر رنگ پکڑنے میں مگن رہتے ہیں۔ یہی زندگی ہے ۔اب مجھے ہی دیکھ لو، ٹائٹس کی جگہ نیم غرارہ استعمال کرنا بھی ہمارے خربوزہ ہونے کی دلیل ہے ۔ اس حوالے سے ہم ’’فیشنی خربوزہ ‘‘ ہیں۔
اس مرتبہ ہم یہاں سے کراچی پہنچے اور اُدھر ہمارے بچپن کے ساتھی کینیڈا سے تشریف لائے۔ہم دونوں نے کھٹارہ قسم کی ٹرین کی تھرڈ کلاس میں ا پنی نشستیں محفوظ کرائیں اور لاہور کیلئے روانہ ہوگئے۔ٹرین بہت ہی کمال کی تھی ۔ ہماری بوگی میں بس پانی نہیں تھا، ٹرین کمال تھی۔ کسی کھڑکی کا شیشہ کھلتا نہیں تھا اور کسی کا بند نہیں ہوتا تھا مگر ٹرین کمال تھی۔ بوگی میں جا بجا کچرا بکھرا پڑا تھا ، ایک سرے پر بوتلوں والوں نے راستہ بند کر رکھاتھا اور دوسری جانب لوگ فرش پر سو رہے تھے، مگر ٹرین کمال تھی۔ہمارے کینیڈین ساتھی تمام تر ’’سہولتیں‘‘ میسر ہونے کے باوجودنجانے کیوںجز بز کا شکار تھے۔نشست سے اٹھ کر دائیں بائیں دیکھتے اور پھر آکر بیٹھ جاتے۔ کچھ سوچتے اورپھر اٹھ کھڑے ہوتے۔ ہم سے رہا نہ گیا۔ سوال کیا کہ مسئلہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ میں سگریٹ پینے کیلئے گیٹ کے قریب جانا چاہتا ہوں مگر راستہ نہیں ہے۔ ہم نے کہا یہیں پی لیجئے، کھڑکیاں کھلی ہیں، تیز ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے یہی سوچ کر کافی دیر جائزہ لیا تو 8 نشستوں کے بعد ایک 10سالہ بچہ دکھائی دیا ہے۔ سگریٹ کا دھواں اس کیلئے خطرناک ہو سکتا ہے اس لئے میں سوچ رہا ہوں کہ اسٹیشن آنے کا انتظار کر لیا جائے۔اسی دوران ہمارے سامنے والی نشست پر بیٹھے شخص نے سگریٹ سلگا لی۔ یہ دیکھ کر ہمارے ساتھی نے کہا کہ میاں کچھ خیال کریں، وہ دیکھیں مسافروں میں ایک بچہ بیٹھا ہے ۔سگریٹ نوش انہیں حیرت سے تکنے لگا۔ ہم نے اس کو حواس باختہ ہونے سے بچانے کیلئے کہا کہ در اصل ہمارے یہ ساتھی ہیں توکٹر پاکستانی مگر 20سال سے کینیڈا میں مقیم ہیں۔ اس نے مسکراتے ہوئے کہا : اچھا اچھا، یعنی موصوف ’’غیر ملکی خربوزہ‘‘ہیں۔یہ ہمارے ہاں6ماہ قیام فرما لیں تو وطنی خربوزہ بن جائیںگے اورسب کی موجودگی میں خوب دھوئیں بازی کریں گے۔ہماری سیاست میں بھی ’’سیاسی خربوزے‘‘ موجود ہیں جو ایک دوسرے کو دیکھ کر رنگ پکڑتے ہیں۔آج ایک سیاسی خربوزے نے جوتے بازی جیسی گھٹیا حرکت کی تواگلے دن دوسرے خربوزے نے رنگ پکڑا اور اپنی اوقات دکھا دی۔