Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نواز شریف کیخلاف فیصلہ آنے والا ہے؟

کراچی (صلاح الدین حیدر)کیا پاکستانی سیاست نیارخ اختیار کرنے والی ہے؟یہی موضوع آج کل زیر بحث ہے ۔ بااختیار لوگ یہ کہتے سنے گئے ہیں کہ شاید نواز شریف اور مریم نواز شریف اور مریم نواز اور ان کے شوہر نامدار کے خلاف کسی قسم کا فیصلہ آجائے۔ ہوسکتاہے کہ انہیں ملک چھوڑ نے پر مجبور ہونا پڑے۔ وثوق سے تو فی الحال کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا لیکن ملک کے نامی گرامی دانشور پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی حالیہ تقریر کا حوالہ دیتے ہیں جس میں انہوں نے فوج، عدلیہ اور سیاست دونوںکو باہم اعتماد کی فضاءمیں کام کرنے کا مشورہ دیا ہے۔اس بات سے تو سب ہی متفق ہیں کہ شہباز شریف جو سابق وزیر اعظم کے چھوٹے بھائی اور (ن) لیگ کے سربراہ بھی ہیں، بڑے بھائی کے خیالات سے پوری طرح حمایت نہیں کرتےوہ فوج اور عدلےہ کے خلاف بیانات دینے سے گریز کرنے میں ہی پارٹی اور شریف خاندان کی بقاء سمجھتے ہیں ۔ اعتراز احسن نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ نواز شریف اور مریم نواز کو سپریم کورٹ میں چلنے والے پانا مہ لیکس کیس میں سزا ہوجائے گی لےکن مریم کو عورت ہونے کی ناتے شاید ہتھکڑیاں نہیں لگیں ۔اسی سے ملتا جلتا بیان پیپلزپارٹی کے رہنما نبیل گبول نے حالیہ انٹرویو میں دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پس پردہ ، کچھ خفیہ ہاتھ نواز اور اسٹیبلشمنٹ جس کو عام طور پر پاکستان میں فوج کے معنی میں لےا جاتاہے۔ ڈیل کرنے میں مصروف عمل ہےں، نہ صرف کوششیں جاری ہیں بلکہ 50فیصد معاملات تو طے پا گئے ہیں۔ نبیل اس بات پر بھی متفق ہیں کہ 2001ءکی طرح اس مرتبہ بھی نواز شریف کو سزا ہوجائے گی اور انہیں ملک بدر کردیا جائے گا۔ کچھ بیرونی طاقتیں بھی ملوث نظر آتی ہیں۔  اور بات جو اہم ہے وہ فوجی ترجمان میجر جنرل آصف غفور کا وضاحتی بیان کہ اےک نشریاتی ادارے کی خبر شہباز شریف نے آرمی چیف سے دو مرتبہ ملاقات کی ہے، سراسر غلط ہے۔ پچھلے 72 گھنٹے میں شہباز شریف اور جنرل قمرباجوہ کے درمیان کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔ آخر اس تقریر کی ضرورت کیوں۔  سوال مبصرین کےلئے معمہ بنا ہوا ہے ۔ کوئی بھی وزیر اعلیٰ کسی وقت بھی فوج کے سربراہ سے مل سکتاہے۔اس میں کوئی نئی بات نہیں، تو پھر خبر کا آخر کیوں اس شدت سے نوٹس لیا گیا؟ جنرل آصف غفور کی تقریر کے فوراً بعد ہی شریف برادران نے طویل ملاقات کی لےکن کیا ہوا  اب تک صیغہ راز ہی ہے۔ دوسری اہم بات ےہ بھی ہے کہ پچھلے اےک ہفتے میں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی نے عدالت کے خلاف بیان بازی سے گریز کیا ہے جو کہ حیرت انگیز ہے۔ کچھ وکلا ءحضرات کا  کہنا ہے کہ عدالت عظمیٰ نواز شریف کی طرف نرمی سے کام لے رہی ہیں۔ اس بارے میں سپریم کورٹ کے جج عیسیٰ فائز قاضی اس عدالتی کارروائی کے دوران ادا کیا جانے والے جملے کے کیس پانامہ لیکس کا تھا اور سزا اقامہ پر ہوئی، کسی خاص طرف اشارہ تو نہیں ؟پھر کیا عدالت عظمیٰ کچھ تذبذب کا شکار ہے۔ اسکے اےک ریٹائر ہونے والے جج دوست محمد نے روایتی تقریب اور عشائیہ جو ان کی رخصتی پر ہونے والا تھا، سے منع کردیا ۔ سپریم کورٹ کی تاریخ میں پہلے کبھی کوئی کورٹ ریفرنس جس میں ریٹائر ہونے والے جج کو عزت واحترام سے رخصت کیا جاتاہے، ردّ نہیں کیا گیا۔ ادھر آرمی نے سابق سربراہ اور صدرمملکت جنرل پرویز مشرف جو بڑے عرصے سے دبئی میں جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں، کی آمد کی خبر کو  اہمیت حاصل ہوگئی ۔ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ نے اس بات کی تصدیق کی کہ نواز شریف کی ہدایت پر افواج کارگل کے محاذ سے گولیوں کی بوچھاڑ میں واپس لوٹی ۔ اس کا الزام مشرف پر جائے گا یا نواز شریف پر، ےہ تو طے کرنا پڑے گا۔ کارگل سے واپسی جلد بازی میں ہوئی۔نواز شریف نے بغیر کسی اعلان کے اس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن سے ملاقات کی لےکن شاید ان کی بات ہندوستان کے وزیر اعظم اور بی جے پی کے سربراہ اٹل بہاری واجپئی نے ماننے سے انکار کردیا۔ پاکستانیوں کو بھاری قیمت ادا کرنی پڑی۔ کئی واقعات تسلسل سے صرف پچھلے چند دنوں میں ہوئے جو کہ قابل غور ہیں، موجود ہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے بہن سے ملنے کے بہانے امریکہ کا نجی دورہ کیا ۔منت سماجت کرکے امریکی نائب صدر مائیک پینس سے ملاقات کی۔اس ملاقات میں پاکستان کی طرف سے کوئی بھی بات چیت نوٹ کرنے کے لئے موجود نہیں تھا، جب کہ  پینس ، امریکہ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی طرف سے  افسر نوٹ لینے کےلئے موجود تھا۔ یہ بات تو سراسر سفارتی آداب کے خلاف ہے پھر پاکستانی وزیر اعظم نے اسے کیوں قبول کیا۔ نتیجہ کیا ہوا، ےہی کہ ملاقات کے بعد پاکستان کی طرف سے کوئی اعلامیہ نہیں جاری کیا جاسکا۔ مائیک پینس کی طرف سے پھر پاکستانیوں کو دہشت گردی کے خلاف مزید اقدامات کرنے کو کہا گیا۔ ےہ تمام باتیں سیاست کا رخ موڑ نے کی طرف اشارہ کرتی ہیں، انہیں آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ ابھی احتساب عدالت کے فیصلے میں کچھ عرصہ باقی ہے۔ ایف آئی اے کے ڈائرےکٹر جنرل واجدضیاءنے آج اپنا بیان ریکارڈ کروایا،جس پر نواز شریف نے درخواست دی کہ اس رپورٹ کے کچھ حصے کو سرکاری ریکارڈ میں شامل نہ کیا جائے ،عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا لگتا ہے کہ نواز شریف کو اب کچھ ریلیف مل جائے گا۔ تو کیا خفیہ ڈیل کی بات درست ہے۔ محض افواہ
مزید پڑھیں:میرے والد کے کاروبار کے پیچھے پڑے ہیں،نواز شریف

شیئر: