Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انحنا، منحنی

***شہزاد اعظم***
ایک حوالے سے ہم انتہائی خوش نصیب واقع ہوئے ہیں، وہ یہ کہ ہمیں وطن عزیز کے اکثر شہروں میں قیام کرنے یا مقیم رہنے کا اعزاز حاصل ہے ۔ا ن میں سے چند نام اگر ہم گنوائیں تو کراچی، لاہور، اسلام آباد، راولپنڈی، ملتان، جہلم، سکھر ، روہڑی ، حیدرآباد، سیالکوٹ، فیصل آباد، کھرڑیانوالہ، پنڈ دادن خان، بھائی پھیرو، رانی پور ریاست، ٹنڈو جام،میاں چنوں، ڈیرہ نواب صاحب، کمالیہ،چیچہ وطنی، بہاولپور، بہاولنگر، نندی پور، رن پٹھانی، جنگشاہی، بادل نالہ،ہلوکی، بلوکی، کامونکے اور ان جیسے درجنوں شہروں ، قصبوں اور دیہات میں ہم کسی نہ کسی بہانے ’’رونق افروز‘‘ رہ چکے ہیں۔آپ یقین جانئے ، ہم نے ارض پاک کے کسی بھی چپے میں تعصب جیسا’’غیر انسانی وتیرہ‘‘کہیں نہیں دیکھا۔ ہم جہاں بھی گئے، لوگوں نے ہمیں ہاتھوں ہاتھ لیا۔سب کی بولیاں اپنی اپنی ہوتیں مگر پھر بھی اردوبولتے ۔ کوئی نستعلیق اردو بولتا، کوئی گلابی، کوئی اٹکل پچو اور کوئی ظریفانہ ،نہ کوئی کسی کا مذاق اڑاتا اور نہ تکبر میں مبتلا ہوتا۔سب اردو میں ہی ایک دوسرے کی بولی سیکھنے کی کوشش کرتے ۔ہمیں کسی بھی شہر میں نہ کوئی پختون ملا، نہ پنجابی، سندھی ملا نہ بلوچی، نہ ہم نے کہیں ’’مہاجر‘‘دیکھا۔ جب ہم بڑے شہروں کی آبادی کا حصہ بنے تو ہمیں پتہ چلا کہ تعصب کا نعرہ تو وہ مارتے ہیں جو ’’کارڈوں کے کھلاڑی‘‘ ہوتے ہیں۔ جب انہیں ڈر ہوتا ہے کہ زمانے کی ہوائیں ان کے چہروں پر پڑے نقاب نوچ کر انکی اصلیت کا لبادہ تار تار کرنے کے در پے ہیںتو وہ قومیتوں اور صوبوں کے نام پر عصبیت کا ’’کارڈ‘‘ کھیلنا شروع کر دیتے ہیں۔اس کا تازہ ترین ثبوت ایک ٹی وی پروگرام ہے جس میں شوبز کی ایک معروف شخصیت آئیں جو میمن تھیں اور انہوں نے کہا کہ مجھے میمنی زبان نہیں آتی کیونکہ میری والدہ میمن نہیں، پنجابی ہیں۔یہی نہیں بلکہ ان کے ساتھ ہی ایک معروف اداکار تشریف فرما تھے۔ وہ پٹھان ہیں، اس کے باوجود انہیں پشتو نہیں آ تی ۔ انہوں نے کہا کہ میری والدہ کا تعلق پنجاب سے ہے ، مجھے پنجابی تو آتی ہے، پشتو نہیں آتی۔یہ سن کر سارا ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ہمارے دل نے گواہی دی، یہ ہے پاکستان اور پاکستانیت کہ دونوںفنکاروں کو اپنی پدری یا مادری زبان آئے نہ آئے، دونوں ہی قومی زبان ’’اردو‘‘ خوبصورت انداز میں بول رہے ہیں۔بہر حال یہ تو ایک ضمنی بات تھی، اب ہم واپس آتے ہیں اپنے ہدف کی جانب:
یہ اُن دنوں کی بات ہے جب ہم کھرڑیانوالہ کی ایک بند گلی میں مقیم تھے۔ اس کا نقشہ یوں تھا کہ اگر کوئی شخص گلی میں داخل ہو کر ناک کی سیدھ میں چلتا رہے تو وہ ہمارے دالان میں داخل ہوجائے گا۔ ہمارے کاشانے کے دائیں جانب والے مکان میں ایک خاندان آبادتھا جس کے چشم و چراغ محترم’’ انحنا‘‘ تھے جبکہ بائیں جانب کے بنگلے میں ایک ’’2شیزہ‘‘ محترمہ’’ منحنی‘‘اپنے اہل خانہ کے ساتھ آباد تھیں۔ انحنا کے گھر والے ، محترمہ منحنی کے حسن و جمال سے بے حد متاثر تھے چنانچہ منحنی نے جیسے ہی میٹرک کا امتحان دیا، انحنا کی والدہ نے اپنے بیٹے کا رشتہ بھجوا دیااور کہہ دیا کہ جیسے ہی ہمارے انحنا کو کوئی اچھی نوکری مل گئی، ہم آپکی منحنی کو بیاہ کر لے آئیں گے۔طرفین رضا مند ہوگئے۔ انحنا اور منحنی بھی بہت خوش تھے۔ انحنا نے ملازمت تلاش کرنی شروع کر دی۔ وہ کوئی ایسی نوکری چاہتا تھا جس میں نہ صرف اپنا اور بیوی کا خرچہ اٹھا سکے بلکہ وطن عزیز کی آبادی میں اضافے کا باعث بن کر اپنی مالی ذمہ داریاںادا کرنے کے قابل بھی ہو سکے۔اس نے سیکریٹریٹ سے لے کر بلدیہ اور ٹیچنگ سے لے کر کلیننگ تک، ہر شعبے میں ملازمت کیلئے کوششیں کیں۔ کہیں وہ تحریری امتحان میں فیل ہو جاتا اور کہیں انٹرویو میں مار کھا جاتا اور یہ دونوں نہ ہوتیں تو سفارش اسے مار دیتی۔ غرض یہ کہ مہینے پر مہینہ، سال پہ سال گزرتا رہا۔ منحنی اپنی بیاہی زندگی کے التوا پر پیر پٹختے پٹختے ’’ جل ککڑی‘‘ ہو گئی۔ بات بات پر جھگڑنے لگتی۔ والدین نے تنگ آ کر اطباء سے رابطہ کیا۔انہوں نے تجویز کیا کہ منحنی کو فوری بیاہ دیاجائے ۔منحنی کے والدین نے انحنا کے گھر والوں سے کہا تو اس کی والدہ نے یہی جواب دیا کہ انحنا بے چارہ سارا سارا دن نوکری کی تلاش میں جوتیاں چٹخاتا پھرتا ہے ، نجانے کیوں اسے کوئی گھاس ہی نہیں ڈالتا۔بس اسے کوئی اچھی ملازمت مل جائے،وہ منحنی کے اخراجاتِ حیات برداشت کرنے کے قابل ہوجائے تو یقین جانئے ایک دن کیلئے بھی منحنی کو آپ کے ہاں رہنے نہیں دوں گی، اسے بہو بنا کر لے آئوں گی۔ یوںانحنا کی جوتیاں چٹختے چٹختے اور منحنی کے پیر پٹختے پٹختے 10برس بیت گئے۔منحنی کی منگنی 15برس کی عمرمیں ہوئی تھی جو آج 25کی ہو چکی تھی جبکہ انحنا بے چارہ جو پہلے ہی 21کا تھا اب 31برس کا ہو چکا تھا۔
ایک روز انحنا حسب معمول در در سے ناکام ہو کر واپس گھر لوٹا تو دیکھا کہ گلی میں قناطیں لگی ہیں۔ اس نے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ منحنی کی بارات آنے والی ہے ۔ یہ سن کر وہ بے ہوش ہو کر گر پڑا۔انحنا کے والدین اسے فوری اسپتال لے گئے۔رات گئے انحنا اسپتال سے رخصت ہو کر گھر پہنچا اور منحنی گھر سے رخصت ہو کر سسرال پہنچ گئی۔انحنا کی والدہ نے بیٹے کو سمجھایا کہ منحنی تمہاری زندگی کا ایک واقعہ تھی جو بیت گیا، مگر انحنا یا اسکے گھر والوں کو شائبہ تک نہ تھا کہ منحنی ایک واقعہ تھی جو بیت گیا مگر وہ ایک سانحہ بھی ہے جوکبھی بیتے گا نہیں بلکہ وقتاً فوقتاً رونما ہوتا رہے گا۔منحنی شادی کے تیسرے روز اپنے میکے آئی تو انحنا کی امی سے ملنے چلی آئی اور چلا چلا کرکہنے لگی کہ آپ کے بیٹے نے میری زندگی کے 10قیمتی سال غارت کر دیئے، میں اسے چین سے بیٹھنے نہیں دوں گی۔ کہاں ہے وہ بے وفا، دروغ گو؟ انحنا کو اس کی ماں نے فون کر دیا کہ رات کو دیر سے گھر آنا ورنہ منحنی ایسی کی تیسی کر دے گی۔انحنا بے چارہ یونہی منہ چھپائے پھرتار ہا۔ پھر یوں ہوا کہ ہم کھرڑیانوالہ سے نقل مکانی کر کے رنپٹھانی جا بسے۔10برس بعد ہم ایک روز انحنا سے ملنے گئے ۔ وہ بہت خوش ہوا ، اس نے اپنے بچے سے بھی ملایا جو 5برس کا تھا۔ اسی دوران اچانک ایک نسوانی غوغا بلند ہوا۔انحنا ہمارے صوفے کے پیچھے جا چھپا۔ایک خاتون کمرے میں داخل ہوئی اور چلا کر بولی کہاں ہے انحنا جس نے میری زندگی کے 10سنہرے برس اکارت کر دیئے۔ آج میرا منا جو 8سال 11ماہ کا ہے، 19ویں سال میں ہوتا۔ ہم نے خاتون کو یقین دلایا کہ ہم انحنا نہیں۔ یہ کہہ کر ہم وہاں سے چلے آئے۔پھر ہم پردیس آگئے۔
گزشتہ دنوں ہم وطن میں تھے۔ ہماری رگِ دوستی پھڑکی اور ہم انحنا کی خیریت دریافت کرنے کھرڑیانوالہ پہنچ گئے۔ اس کے ڈرائنگ روم میں بیٹھے تھے۔اچانک نسوانی ہا ہا کار مچی کہ کہاں ہے انحنا، جس نے میری زندگی کے 10سنہرے برس کوئلہ کر دیئے۔ آج میں دادی بننے کیلئے ’’پُر امید‘‘ہوں۔ اگر انحنا میرے 10سال برباد نہ کرتا تو آج میرا پوتا پوتی کے10برس ہوتے۔ہم نے پھر کہا کہ یقین جانئے ہم انحنا نہیں۔کل ہم نے ایک بھیانک ٹاک شو دیکھا جس میں انحنا اور منحنی دونوں ہی مہمان بن کر آئے تھے اور وہ کبھی غرا رہے تھے، کبھی دھاڑ رہے تھے کہ اس سیاسی ٹولے نے ہمارے زندگی کے 30قیمتی سال برباد کر دیئے، ان سے ہم ایک ایک لمحے کا حساب لیں گے، یہ سنتے ہی ہم پر کپکپی طاری ہو گئی۔ہم نے فوراً ٹاک شو بند کر دیااور سوچنے لگے کہ منحنی نے 10سال معاف نہیں کئے تھے،30پر کیسے صبر کریگی؟
 

شیئر:

متعلقہ خبریں