سعودی عرب نے2017ءمیں 19.89بلین ریال کی ادویہ درآمد کیں ۔ یہ شرح2016ءکے مقابلے میں 2.4فیصد زیادہ ہے جبکہ 2018ءکے پہلے دوماہ کے دوران ادویہ کی درآمدات3.17بلین ریال بتائی جاتی ہیں۔ یہ اعداد و شمار وزارت صحت کے ترجمان عیسی العیسی نے جاری کی ہیںجنہوں نے کہا ہے کہ مملکت نے یہ ادویہ جرمنی، امریکہ، سوئٹزر لینڈ، فرانس، آئرلینڈ، ڈنمارک،اٹلی، برطانیہ، سویڈن، بیلجئم، اسپین، اردن، امارات اور ہالینڈ سے درآمد کی ہیں۔وزارت صحت کے ترجمان کی طرف سے جاری ہونے والے اعداد وشمار کے متعلق چند سوالات ہیں جن کے جوابات دیئے جانے چاہئیں۔
ادویہ کے شعبے میں مملکت بہت بڑی مارکیٹ ہے مگر اس بڑی مارکیٹ میں ادویہ کی صنعت نہ ہونے کے برابر ہے۔ میں اس شعبے کا ماہر نہیں مگر مجھے لگتا ہے کہ درآمدات کے تاجروں کی وجہ سے مملکت میں ادویہ کی صنعت اس قدر پستی میں ہے۔ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ ہم اپنی ضرورت کی 80فیصد ادویہ باہر سے منگواتے ہیں نیز ان ادویہ کی قیمت بہت زیادہ ہوتی ہے بلکہ پڑوسی ممالک کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ اگر ہم اسی دوا کو مصر یا اردن سے خریدیں تو ہمیں بہت زیادہ سستی ملے گی۔
ایک اور پہلو بھی قابل غور ہے کہ ہمارے ملک میں ادویہ کی میعاد بہت کم ہے۔ دیگر ممالک کا مقابلہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہماری مارکیٹ میں فروخت ہونے والی دواءکے ڈبے میں تاریخ انتہا بہت کم لکھی ہوتی ہے۔سال رواں کے ابتداءمیں ریاض میں ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس میں شرکاءنے بتایا کہ مملکت میں فروخت ہونے والی ادویہ کی تاریخ انتہا دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت کم لکھی جاتی ہے۔ شاید یہ درآمد کرنے والے تاجروں کی ملی بھگت ہو کہ جتنی جلدی دواءکی معیاد ختم ہوگی اتنا ان کا فائدہ ہوگا۔مملکت میں ادویہ کی صنعت کی راہ میں شاید بیوروکریسی بھی ہو جو عالمی کمپنیوں کو ادویہ کی صنعت مملکت میں منتقل کرنے کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔
وژن2030 کے تحت جہاں پورے ملک میں جامع اصلاحات ہورہی ہیں وہاںان کا دائرہ مزید وسیع کرتے ہوئے اس میں ادویہ کی صنعت کو بھی شامل کرنا چاہئے۔ مقامی طور پر ادویہ کی صنعت کے علاوہ درآمد کی جانے والی ادویہ کے نرخوں کا بھی جائزہ لیا جائے۔ منافع خوری کے بجائے عدل اور انصاف سے تاجروں اور درآمد کرنے والوں کو جائزہ منافع دیا جائے ۔ میرا خیال ہے کہ یہ صارفین کے ادنی حقوق میں سے ہے۔