Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اللّٰہ تعالٰی کی تسبیح

    پوری کائنات اور اس کی ہرشئے اپنے پورے وجود سے اس حقیقت پر گواہی دے رہی ہے کہ جس نے اس کو پیدا کیا ہے اور جو اس کی پروردگاری اور نگہبانی کر رہا ہے اس کی ذات ہر عیب، نقص اور کمزوری سے منزہ ہے اور وہ اس سے بالکل پاک ہے کہ اس کی خدائی میں کوئی اس کا شریک ہو،ارشاد ربانی ہے’’ تُسَبِّحُ لَہُ السَّمٰواتُ السَّبْعُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِیْہِنَّ،وَاِنْ مِّنْ شَیٍٔ اِلّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِہٖ وَلٰکِنْ لاَّتَفْقَہُوْنَ تَسْبِیْحَھُمْ،اِنَّہٗ کَانَ حَلِیْمًا غَفُوْرًا‘‘
    ’’اس کی پاکی تو ساتوں آسمان اور زمین اور وہ ساری چیزیں بیان کر رہی ہیں جو آسمان و زمین میں ہیں، کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کر رہی ہو مگر تم ان کی تسبیح نہیں سمجھتے ، حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑاہی بردبار اور درگزر کرنے والا ہے(اسراء44)
    کائنات کا ہر ذرہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتا ہے،ہر طلوع وغروب ہونے والے سورج کے ساتھ کائنات کی ہر شئے حمد کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتی ہے۔حمد کے ساتھ تسبیح بیان کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہرشئے نہ صرف یہ کہ اپنے خالق اور رب کا عیوب ونقائص اور کمزوریوں سے پاک ہونا ظاہر کر رہی ہے بلکہ اس کے ساتھ وہ اس کا تمام کمالات سے متصف اور تمام تعریفوں کا مستحق ہونا بھی بیان کر رہی ہے۔ ایک ایک چیز اپنے پورے وجود سے یہ بتارہی ہے کہ اس کا صانع اور منتظم وہ ہے جس پر سارے کمالات ختم ہوگئے اور حمد اگر ہے تو بس اسی کے لئے ہے۔
    علمائے کرام کا کہنا ہے کہ تسبیح کی 2قسمیں ہیں۔ایک تسبیح اختیاری اور دوسری تسبیح اضطراری ۔تسبیحِ اختیاری تو فرشتے اور مومن جن وانس کے لئے مخصوص ہے مگر تکوینی طورپر اللہ تعالیٰ نے کائنات کے ذرے ذرے کو اپنا تسبیح خواں بنارکھا ہے، یہی تسبیحِ اضطراری ہے۔تسبیح تکوینی لوگ سن نہیں سکتے، یہ ہمارے فہم وادراک سے بالاتر ہے۔
    انسان اشرف المخلوقات کے علاوہ زمین پر اللہ تعالیٰ کا خلیفہ ہے۔اسے سب سے زیادہ تسبیح بیان کرنی چاہئے تھی مگر افسوس کہ یہ اپنے خالق ومالک کے ذکر سے غافل ہے۔اللہ تعالیٰ نے انسانوں پر جو انعامات فرمائے ہیں اس کے بدلے میں اگر ہمارا رواں رواں بھی ساری زندگی تسبیح وتحمید میں لگا رہے تب بھی کم ہے۔ارشاد رسولِ کریم ہے’’ہر روز جب سورج طلوع ہوکر بلند ہوتا ہے تو کائنات میں اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں کوئی بھی چیز ایسی باقی نہیں رہتی جو اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تحمید نہ بیان کرتی ہو سوائے شیطانوں اور غافل انسانوں کے‘‘(صحیح الجامع الصغیر)
    درج بالا آیت کے آخر میں فرمایا گیا ’’اِنَّہٗ کَانَ حَلِیْمًا غَفُوْرًا‘‘حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑاہی بردبار اور درگزر کرنے والا ہے۔یعنی یہ اس کا حلم اور شان غفاری ہے کہ تم اس کی جناب میں گستاخیوں پر گستاخیاں کئے جاتے ہو اور اس پر طرح طرح کے بہتان تراشتے ہو پھربھی وہ درگزر کئے چلاجارہا ہے۔نہ رزق بند کرتا ہے ، نہ اپنی نعمتوں سے محروم کرتا ہے اور نہ ہر گستاخ پر فورا ًبجلی گرادیتا ہے۔ پھر یہ بھی اس کی بردباری اور اس کے درگزر ہی کا ایک کرشمہ ہے کہ وہ افراد کو بھی اور قوموں کو بھی سمجھنے اور سنبھلنے کے لئے کافی مہلت دیتا ہے۔
مزید پڑھیں:- - - - -رجب ، اللّٰہ تعالٰی کا محترم مہینہ

شیئر: