Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فیس بک جنریشن....جن کا ’’بک‘‘ سے دور کا بھی واسطہ نہیں

 ایسے بچے’’فیس ‘‘ہی سے پہچان لئے جاتے ہیں،پرانے لوگ کہا کرتے تھے کہ نیکی کر دریا میں ڈال،FBجنریشن کہتی ہے: کچھ بھی کر فیس بک پر ڈال.....  اب خواتین کو دوسروں کی ٹوہ میں نہیں رہنا پڑتا،FBسے پتہ چل جاتا ہے کہ کس ’’دشمن‘‘نے کونسا اور کس رنگ کا سوٹ پہن رکھا ہے اور کس رنگ کی لپ اسٹک لگا رکھی ہے
 مراد علی شاہد
اپنی کلاس کے(بطور ٹیچر ایک ادارے میں کام کرتا ہوں)ایک ممی ڈیڈی بچے سے پوچھا کہ"آپ کے پاپا کیا کرتے ہیں"تو شرماتے،لجاتے،لچکاتے ہوئے بچہ گویاہوا :سر پاپا وہی کرتے ہیں جو مما  چاہتی ہیں ۔
میں نے پوچھا:اور مما کیا چاہتی ہیں؟
وہ کیا چاہیں گی سر !مما تو خود پاپا کی چاہت ہیں۔
ایسے بچوں کو,F B generation yuppy بچے بھی کہتے ہیںیعنی جو بات سمجھ نہ آئے اس پہ yup,yup اور سمجھ آ جائے تو waooo ۔انہیں  she بچے بھی کہا جا سکتا ہے۔کیونکہ یہ ہر بات پہ "she,she" یا "سی،سی " کہہ رہے ہوتے ہیں۔ایسے بچوں کا کوئی اور فا ئدہ ہو نہ ہو خرچہ بہت کم کرواتے ہیںبلکہ یہ کہنا مناسب ہو گا کہ ایک بہن کے ساتھ ایک ممی ڈیڈی بچہ مفت میں پرورش پا جاتا ہے۔ باجی کے جھمکے تک پہن کر جھمک جھمک اور ٹھمک ٹھمک کے سے اندازِ خرامانہ طائوس چلتے ہیں کہ مسٹر فراز کم ،مس فرزانہ کاگماں  زیادہ ہوتا ہے۔
فیس بک جنریشن کے نو جوان face  ہی سے پہچان لئے جاتے ہیںکہ ایسے بچے محضfaces بناتے ہیں ، book سے ان کا دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ایسے نوجوان face کے نزدیک اور book سے بہت دور رہتے ہیں۔FBپر mail اتنی چیک نہیں کرتے  جتنی female اور وہ  بھی فی میل(per mile)کی اسپیڈ سے۔ان کی نظروں سے کوئی بھی female بچ نہیں سکتی۔کسی دن اگرا سٹیٹس تبدیل کرنا بھول جائیں تو وہ دن ان کیلئے انتہائی تکلیف دہ ہوتا ہے۔جلد کسی کے ہاں مہمان نہیں بنتے ،البتہ اُنہی کے ہاں مہمان بننا پسند ہے جن کے ہاںwi fi   سگنل پورے آتے ہوں۔ایسے نوجوان جن کے ہاں بھی مہمان بن کر جاتے ہیں حال و احوال سے قبل پوچھتے ہیں کہ آپ کے وائی فائی کا password   کیا ہے۔
پرانے لوگ کہا کرتے تھے کہ نیکی کر دریا میں ڈال۔FB جنریشن کہتی ہے کہ کچھ بھی کر face book پر ڈال۔ان کی گفتگو  و اندازِ گفتگو دونوں ہی "قابل دید " ہوتا ہے۔کبھی کبھار تو دوران گفتگو "کتھک،سالسا،کلاسیکل،ڈسکو،لاوا،اور جھومر"  وہ کون سا ڈانس ہے جن کے step یہ نہ کر پاتے ہوں۔گویا گفتگو کم اور ڈانس زیادہ۔
FB  جنریشن کی گفتگو کا آ غاز ,like,dislike,status,upload سے شروع ہو کر feeling sad   پر جا کر ختم ہو جاتا ہے۔ان کی آپس میں ناراضگی بھی عجب قسم کی ہوتی ہے کہ کیا لڑکیاں آپس میں" طعنے  معنے"دیتی ہونگی۔مثلاً تم نے باجی کے اسٹیٹس کو like کیوں نہیں کیا ،میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروںگااور دوست بھی ماشااللہ ،status سے قبل ہی باجی کو  like  کئے بیٹھا ہوتا ہے۔یا پھر…میری مما پاپا کی شادی کی تصویر دیکھی تھی نا ،کتنے cute لگ  رہے تھے نا،مگر میں آپ سے بات نہیں کرتا، تم نے اس پہ اتنا گندہ کمنٹ کیا کہ اس پر مما  ،پاپا  کو ڈانٹ پلا رہی تھیںکہ دیکھو اپنے لاڈلے کے دوست۔فیس بک اسٹیٹس نے لوگوں کو استعمال کرکر کے اتنا گرا دیا ہے کہ بیورو کریٹس قسم کے لوگ ا سٹیٹس اپلوڈ کر رہے ہوتے ہیں۔checked into barber shop for cutting  ۔بندہ پوچھے کہ باربر کی دکان بال کٹوانے کے لئے ہی ہوتی ہے ،کھانا کھانے کے لئے تھوڑی ہوتی ہے۔
FBجنریشن کی حالت اُس وقت قابل رحم ہوتی ہے جب کسی ایسی جگہ ہوں کہ جہاں wi fi  کے سگنل نہ آ رہے ہوںاور ڈیٹا نیٹ ورکنگ کی ا سپیڈ بھی بہت کم ہو تو ان کی حالت "ہیروئنچی" جیسی ہوتی ہے ۔فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ ہیروئنچی نشہ نہ ملنے پر جسم کو کھجا ر ہا ہوتا ہے جبکہ فیس بک کے "پپو بچیـ" بار بار ٹچ اسکرین کو کھجاتے دکھائی دیتے ہیں۔ایسی صورت حال میں FB  ہیروئنچی اپنی اپنی "کھوہ" سے نکلتے ہیں  اور فیملی کے بڑے بوڑھے سے علیک سلیک  بڑھاتے ہوئے بہتر محسوس کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یار "بڑے اچھے لوگ ہیں کبھی کبھار ان سے بھی ملنا چاہئے"۔
جہاں فیس بک کے بہت سے نقصانات ہیں وہاں کچھ فائدے بھی ہیں کہ اب خواتین کو دوسروں کی "ٹوہ"  میں نہیں رہنا پڑتا۔FB سے سب پتہ چل جاتا ہے۔کہ کس "دشمن "نے کون سا  اور کس رنگ کا سوٹ اور لپ اسٹک لگا رکھی ہے،کہاں کہاں چغلی میٹنگ ہو رہی ہے اور آئندہ کس کے ہاں چغلی میٹنگ ہو گی وغیرہ وغیرہ۔گویا سب کا راز افشاں کرنے والی کتاب کا نام ہے فیس بک۔یہ واحد کتاب ہے جسے بچے،جوان،اور طالب علم بڑے شوق سے پڑھتے ہیں جبکہ بڑے بوڑھے اور اَن پڑھ اسے تجسس سے دیکھتے ہیںاور "موج مزہ"کرتے ہیںکہ" بابوں" کا وقت اچھا گزر جاتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: