خالد السلیمان۔ عکاظ
سعودی عرب کے محکمہ شماریات نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں کہا ہے کہ 2017ءکے اختتام پر سعودی عرب کی آبادی 20.408.361 ہوگئی ہے۔ گزشتہ سال کے مقابلے میں آبادی کی شرح میں 1.7فیصد اضافہ ہو ا ہے۔ مملکت کے جغرافیائی رقبے ، قدرتی ذخائر اور بیشمار وسائل کو دیکھتے ہوئے جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ مملکت کی آبادی انتہائی کم ہے۔ اس کے بالمقابل حکومتی امداد پر مبنی معیشت کے تناظر میں دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آبادی بہت زیادہ ہے۔ وجہ یہ ہے کہ حکومتی امداد پر مبنی معیشت میں آبادی میں ہونے والا ہر اضافہ ملکی خزانے پر بوجھ ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں یہی تصور آج تک رائج ہے کہ نہ صرف ملک کی معیشت بلکہ افراد کی معیشت کا دارومدار حکومتی امداد پر مبنی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 2020ءتک ہونے والا مالی توازن کا پروگرام اور ویژن 2030 پر عمل وقت کی ضرورت بن گیا ہے۔ معاشرے اور ملک کی معیشت کو حکومتی امداد سے علیحدہ کرنا ہے۔ اس کے بغیر مزید 10یا 20برس تک یہی حال رہے گا کہ ملکی معیشت اور افراد کی معیشت کا انحصار حکومتی امداد پر رہے گا۔ مالی توازن کا نظریہ پیش کرنے والوں نے بھی اسی تصور کو سامنے رکھتے ہوئے اپنا ویژن دیا ہے جسے حکومت نے منظور کر لیا ہے۔ مملکت کی بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ ان کی ضروریات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ محدود ذرائع آمدنی سے حکومت ان کی ضرورتوں کو زیادہ عرصے تک پورا نہیں کر سکتی ۔ دنیا بدل رہی ہے اور معاشی نظریات بھی اس کے ساتھ تبدیل کر رہے ہیں۔ اب دنیا کی کوئی بھی حکومت اپنے شہریوں کی مالی مدد نہیں کرتی۔ ریاستوں کی معیشت اپنے بل بوتے پر نہ صرف قائم رہتی ہے بلکہ فروغ پاتی رہتی ہے۔ مالی توازن کا پروگرام کامیاب کروانا نہ صرف حکومت کی ذمہ داری ہے بلکہ شہریوں کے ذمہ عائد ہے کہ وہ حکومتی امداد پر گزارا کرنے کا تصور ختم کر دیں۔
محکمہ شماریات کی جانب سے جاری ہونے والے اعداد و شمار سے معلوم ہوا ہے کہ سعودی عرب کی 30فیصد آبادی کی عمر15سال سے کم ہیں۔آبادی میں 57فیصد مرد ہیں۔ 59فیصد خواتین شادی شدہ ہیں۔یہ اعداد و شمار ہمیں بتاتے ہیں کہ ان طبقات کی موجودگی ملک کی معیشت پر کیا اثرات مرتب کرتی ہے۔ اعداد و شمار میں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ آبادی کا 51فیصد حصہ مکہ مکرمہ اور ریاض ریجن میں رہائش پذیر ہے۔ اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ ان دو ریجنوں میں ملازمت اور بہتر تعلیم کے مواقع زیادہ ہیں۔ اسی نکتے کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت دیگر ریجنوں کے علاوہ مملکت کے دور دراز علاقوں میں تعلیمی ادارے اور صنعتی و اقتصادی شہر قائم کر رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آبادی کا تناسب مساوی نہ ہو تو کم از کم قریب تر ہو۔ حکومت نے اسی چیز کو پیش نظر رکھتے ہوئے نیوم منصوبے کا اعلان کیا ہے۔ یہ مستقبل کا منصوبہ ہے۔ جس کی وجہ سے آبادی کے موجودہ تناسب میں بہت بڑا فرق آجائے گا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ نیوم میں آبادی کی تعداد دیگر تمام شہروں سے زیادہ ہو گی۔
محکمہ شماریات کی طرف سے جاری ہونے والے اعداد وشمار کا بغور مطالعہ ضروری ہے۔ ماہرین کو چاہئے کہ مستقبل کا بہتر منصوبہ بنانے کے لئے ان اعداد و شمار کو سامنے رکھیں۔ معیشت کے پہیے کو گھمانے اور نئی آسامیاں پیدا کرنے کیلئے مملکت کی ڈیموگرافی کا جائزہ لینا ضروری ہو گا۔ سعودی عرب کو پیداواری معاشرہ بنانے کیلئے اور حکومتی امداد پر تکیہ کرنے والی معیشت سے نکلنے کیلئے آج درست فیصلے کرنے ہوں گے۔ اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو ترقی کی راہ میں بہت سارے ممالک سے کافی پیچھے رہ جائیں گے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭