Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودائزیشن کی شرح میں اضافہ اعدادوشمار کا گورکھ دھندا

ابراہیم علی نسیب ۔ المدینہ
ہم اپنی گفتگو میں سعودائزیشن کی اصطلاح بہت کثرت سے استعمال کرتے ہیں۔ نجی محفلوں کے علاوہ سرکاری بیانات اور میڈیا میں بھی سعودائزیشن پر بہت زیادہ زور دیا جارہا ہے۔ کون نہیں چاہتا کہ اس کا بیٹا یا بیٹی جو پڑھ لکھ کر فارغ التحصیل ہوا ہے وہ کسی مناسب ملازمت پر لگ جائے۔ افسوس کہ صورتحال بہت زیادہ پیچیدہ ہے۔ مجھے کہنے دیجئے کہ دنیا کے دیگر ممالک سوچنے اور سمجھنے والے دماغوں کو دونوں ہاتھوں سے لے لیتے ہیں اور ان کی ضروریات پر مال خرچ کیا جاتا ہے مگر ہمارے یہاں معاملہ اس کے برعکس ہے کہ ہم سوچنے والے دماغوں کے علاوہ کام کرنے والے ہنر مندوں کے ساتھ امتیازی رویہ رکھ رہے ہیں۔ انکے اندر آگے بڑھنے کا حوصلہ پست کررہے ہیں۔ انہوں نے پڑھنے لکھنے اور اعلیٰ ڈگریوں پر جو عمر صرف کی ہے اس پر افسوس اور ندامت کرنے پر مجبور کررہے ہیں۔ جب وہ دیکھتے ہیں کہ اعلیٰ ڈگریاں حاصل کرنے کے باوجود انہیں مناسب ملازمت نہیں مل رہی۔ یہ حقیقت ہے کہ یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل سعودی نوجوان اور خواتین کے لئے مناسب ملازمت خواب بن کر رہ گئی ہے۔
کوئی یقین کرسکتا ہے کہ مستند یونیورسٹی سے فارغ التحصیل فزکس کا ماہر ایک نجی اسکول میں 3ہزار ریال تنخواہ پر ملازمت کرنے پر مجبور ہوسکتا ہے۔ اسی آمدنی سے اسے کرایہ بھی دینا ہے اور گھر کا خرچ بھی چلانا ہے۔ یہ محض نمونہ ہے ورنہ اس طرح کے بے شمار واقعات روز مرہ کی زندگی میں نظر آتے ہیں۔ آدمی تھوڑی سی محنت کرکے دیکھے تو اسے چارو ںجانب اسی طرح کے نوجوان ملیں گے جن کی اعلیٰ ڈگریاں انکے کسی کام نہیں آئیں۔ افسوس اس وقت ہوتا ہے جب متعلقہ اداروں کے ترجمان اور ذمہ داران سعودائزیشن کی شرح میں اضافے کی باتیں کرتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سعودائزیشن کی شرح میں اضافہ اعدادوشمار کے گورکھ دھندے کے سواکچھ نہیں۔ اگر سعودائزیشن کی شرح میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے تو ان ہزاروں نوجوانوں کو مناسب ملازمت سے کیوں محروم رکھا جارہا ہے؟ سوال یہ ہے کہ میں نے اپنی اولاد کو پڑھایا لکھایا اور اعلیٰ ڈگریاں دلوائیں تو اسکا حاصل کیا ہوا؟ میرے بیٹے کو اور آپ کے بیٹے کو مناسب ملازمت کیوں نہیں مل رہی؟ یہی نوجوان نسل ملک کا مستقبل ہے۔ انہیں اگر کہیں ملازمت ملتی ہے تو اتنی تنخواہ دی جاتی ہے کہ وہ مشکل سے خود اپنا گزر بسر کرسکتے ہیں۔ جو نوجوان معمولی تنخواہ پر راضی نہیں ہوتے وہ بیکار گھومنے پھرنے پر مجبور ہیں اس طرح انکی تمام امیدوں پر پانی پھر جاتا ہے۔
سعودائزیشن ملک کی ضرورت ہے۔ ہمارے پاس ہزاروں نوجوان ہیں جو اعلیٰ ڈگریاں لیکر فارغ پھر رہے ہیں۔ انہیں مناسب اسامیاں دلوانا متعلقہ اداروں کی ذمہ داری ہے۔ سعودائزیشن پر مامور اداروں کو چاہئے کہ وہ اعدادوشمار کے گورکھ دھندے سے نکل کر حقیقی دنیا میں آئیں اور دیکھیں کہ بے روزگاری کی شرح میں کس قدر اضافہ ہورہا ہے۔ جن نوجوانوں کو ملازمتیں فراہم کی جارہی ہیں کیا وہ ان کی تعلیم او صلاحیتوں کے مطابق بھی ہیں یا نہیں؟ کیا انہیں مناسب تنخواہ دی جاتی ہے۔ اتنی تنخواہ کہ وہ گھر کا کرایہ بھی دیں اور بال بچوںکو پال سکیں۔ سعودائزیشن پر مامور ادارے اور انکے ذمہ داران اللہ کے سامنے جوابدہ ہیں۔ انہیں حکومت نے جو ذمہ داری دی ہے اسکے بارے میں ان سے ضرور پوچھ گچھ ہوگی۔
٭٭٭٭٭٭

شیئر: