Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عرب ممالک کے المیوں میں اخوان المسلمون کا ہاتھ

سلطان عبدالعزیز العنقری ۔ المدینہ
لوگوں کے ساتھ ہمارا معاملہ انتہائی عجیب ہے۔ اب انہیں راضی کرنے کیلئے کریں تو کیا کریں۔ یہی لوگ ہیں جو کچھ عرصہ پہلے تک ہمیں انتہائی پسماندہ اور ہمارے معاشرے کو کنویں کا مینڈک کہہ رہے تھے۔ہم پر رجعت پسندی کا الزام لگا کر کہا جارہا تھا کہ ہم ترقی یافتہ معاشروں کے قافلے میں بالکل پیچھے ہیں۔معاملہ یہاں تک جاپہنچا کہ مغربی میڈیا سمیت فارسی میڈیا سے متاثر ہونے والے عرب میڈیا تک نے ہم پر ایک نیا مذہب چسپاں کردیا۔ ہمیں وہابی کہا جانے لگا۔ یہ اصطلاح شیخ محمد بن عبدالوہاب کی اصلاحی تحریک کی نسبت سے لگائی گئی ہے۔ پھر ہم نے دیکھا کہ بعض طاقتیں ایسی ہیں جن میں اخوان المسلمون بھی شامل ہے اس الزام کو دنیا بھر میں رواج دیکر ہمیں دہشتگردوں کی فکری سیرابی کا ذریعہ بنا رہے ہیں۔اخوان المسلمون بھول گئے کہ نہ صرف نائن الیون سانحہ ان کی منحرف فکر کی وجہ سے رونما ہوا بلکہ دنیا بھر میں ادھر ادھر جہاں کہیں بھی دہشتگردی ہورہی ہے اسکی فکری سیرابی اخوان کے لٹریچر سے ہورہی ہے۔ 
اب جبکہ عرب ممالک کے موسم بہار نامی عوامی تحریک کی دھول بیٹھ چکی ہے اور مطلع صاف ہوگیا ہے تو حالات و واقعات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ درحقیقت یہ عرب کا موسم بہار نہیں بلکہ مغرب کا موسم بہار تھا جسکے پیچھے اخوان المسلمون ملوث رہی ہے۔ حقائق و واقعات کا تجزیہ کیا جائے تو عرب ممالک میں مغربی موسم بہار کا آغاز تیونس سے سبزی کا ٹھیلا لگانے والے نوجوان بوعزیزی کی خودسوزی کے واقعہ سے ہوا۔پھر وہ لاوا پھٹ پڑا جس کے پیچھے النہضہ تنظیم تھی جو دراصل تیونس میں اخوان المسلمون کی ہی شاخ ہے۔ تیونس سے عوامی بغاوت مصر منتقل ہوئی ۔ یہاں اس عوامی تحریک کو اخوان المسلمون نے پروان چڑھایا۔نام نہاد موسم بہار اس کے بعد لیبیا منتقل ہوا۔ یہاں بھی سرایا الدفاع،بن غازی کے انقلابی ،مجلس شوریٰ درنہ،قاعدہ اور داعش ہی برابر ملوث تھے۔ یہ تمام تنظیمیں اخوان کے بطن سے پیدا ہوئیں۔ عرب موسم بہار جو دراصل مغرب کا موسم بہار تھا شام تک جا پہنچا۔ یہاں اسکے پیچھے داعش اور النصرہ فرنٹ کے علاوہ دیگر دہشتگرد تنظیمیں ہیں جو سب کی سب اخوان کو بڑا بھائی سمجھتی ہیں۔عوامی غیض و غضب کی تحریک صومالیہ میں بھی اٹھی جس کا محرک مسلم نوجوان تحریک تھی۔ یہ بھی اخوان المسلمین کی لے پالک ہے۔ فلسطین میں ابتر صورتحال کی ذمہ دار حماس تحریک ہے جسکے سربراہ خالد مشعل کے اخوانی ہونے میں کسی کو شک و شبہ نہیں اور جو فلسطینی عوام کو بانٹنے کی ذمہ دار ہے۔ اس تحریک کی وجہ سے فلسطین کو جتنا نقصان پہنچا ہے اس کا احاطہ کرنا ممکن نہیں۔ یہی وہ تحریک ہے جس نے یہودی آباد کاری کو شہ دی۔ اسی کی وجہ سے فلسطینی عوام کے خلاف مظالم ڈھائے جاتے ہیں۔ عراق میں بھی صورتحال دیگر ممالک سے مختلف نہیں۔یہاں اخوان کی تنظیم ایران کے تعاون سے عراق ، شام اور یمن میں سنی شہریوں کے قتل عام کی ذمہ دار ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ عرب ممالک میں جتنے بھی المیے ہوئے ان سب کے پیچھے دہشتگرد تنظیم اخوان المسلمون کا ہاتھ ہے۔ اس تنظیم کی تخریب کاریوں کی فکری سیرابی قطر میں پناہ گزیں مصری عالم یوسف القرضاوی کررہا ہے۔ اس سازش کے تمام تانے بانے اسرائیلی ایجنٹ عزمی بشارہ بن رہا ہے جو قطری حکام کی پشت پناہی میں ہے۔ اسی عزمی بشارہ کی وجہ سے عرب ممالک میں فساد مچا ہوا ہے۔اس تنظیم کی تخریب کاریاں گزشتہ 25سال سے جاری ہیں۔ 
سعودی عرب وہ واحد ملک ہے جس نے بہت پہلے اخوان المسلمون کی خطرناکی کو بھانپ لیا تھا۔ فوری اقدام کے طور پر مملکت کی سرزمین کو اس تنظیم سے وابستہ افراد سے بچانے کیلئے انہیں ملک بدر کردیا تھا۔اب مشرق اور مغرب کے ساتھ ہم کریں تو کیا کریں جو ہمیں کسی طور چین سے بیٹھنے نہیں دے رہے۔ ہم رجعت پسندی سے نکل کر جدیدیت کی طرف جارہے ہیں۔ ہمیں قطر کا ڈھول پیٹنے والے الجزیرہ چینل کی افترا پردازیوں کا سامنا ہے۔
ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان جس جدید ریاست کی طرف مملکت کو لیجارہے ہیں وہ اس کے علمبردار بھی ہیں۔ الجزیرہ چینل دنیا کو باور کرانے کی کوشش کررہا ہے کہ سعودی معاشرہ غیر معروف روایات کو اپنانے کی کوشش کررہا ہے۔ قطر اور اخوان المسلمون چاہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ پسماندہ رہے اور ترقی یافتہ ممالک کی صفوں میں شامل نہ ہو۔ وہ چاہتے ہیں کہ گزشتہ 40سال سے جو روایات معاشرے پ نافذ کی گئی تھیں انہیں برقرار رکھا جائے۔ہم اخوان المسلمون کے افکار ونظریات اوران کے من گھڑت دین کو قبول نہیں کرتے۔ ہم اسلام کی اعتدال پسند تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر آگے بڑھتے رہیں گے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: