Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آہ ! یہ کلمۂ طیبہ سے نا واقف مسلمان

ہند میں بسنے والے30 کروڑ مسلمانوں میں سے اگر ایک فیصد لوگ بھی کلمہ سے واقف نہیں تو اس کا مطلب ہے کہ30 لاکھ افراد کلمہ نہیں جانتے
 
* * *ظہیر الدین صدیقی ۔اورنگ آباد * * *
    لفظ مسلمان کے ساتھ بہت سارے ’ـ’بے‘‘  لگائے جاتے ہیں۔مثلاًبے کس، بے بس، بے حس، بے غیرت، بے حیا، بے شرم، بے کار، بے روزگار، بے لگام، بے اثر، بے ضرر، بے عمل وغیرہ وغیرہ حتیٰ کہ بے ایمان بھی کہا جاتا ہے لیکن آج تک آپ نے ’’بے کلمہ‘‘ مسلمان نہ سنا ہوگا  نہ پڑھا ہوگااور نہ ہی دیکھا ہوگالیکن پچھلے دنوں علمائے کرام، حفاظ قرآن اور دانشوروں کے ایک واٹس ایپ گروپ پر ایک عالم دین کی درد بھری پوسٹ پڑھ کر ایسا حیرت انگیز جھٹکا لگا کہ لفظوں میں اس کا اظہار ممکن نہیں۔ اس پر کوئی تبصرہ کرنے سے پہلے قارئین کی آگاہی کیلئے مولانا کی وہ پوسٹ من و عن درج کی جارہی ہے ۔
    ’’نکاح کی تقریب میں جب ایک مسلمان کلمہ طیبہ نہیں پڑھ سکا !(محمد اطہر القاسمی28 فروری2018ء)
     اس شہ سرخی کے ساتھ مولانا لکھتے ہیں:
     ’’شرعاً 2عاقل و بالغ مسلمان گواہوں کی موجودگی میں مہر کے ساتھ ایجاب و قبول سے نکاح منعقد ہوجاتا ہے مگر نوجوانوں میں دینی تعلیم کے فقدان کی وجہ سے احتیاطاً کلمہ وغیرہ پڑھا دینا بہتر ہے (فتاویٰ دارالعلوم دیو بند)۔     بندہ عاجز نکاح کے وقت اسی احتیاطی حکم کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایجاب و قبول سے پہلے عموماً کم از کم کلمہ طیبہ پڑھوالیا کرتا ہے مگر 28 فروری 2018ء کو نکاح پڑھاتے وقت میری ملاقات ایک ایسے مسلمان عاقل و بالغ نو جوان سے ہوئی جسے میں نے کلمہ پڑھاتے وقت محسوس کیا کہ اسے کلمہ طیبہ یاد نہیں ، چنانچہ میں نے مجمع میں ہی بننے والے اس دلہا سے کہا کہ آپ از خود کلمہ پڑھیے ۔قارئین کرام !آپ حیرت میں ڈوب جائیں گے ، اس نوجوان نے کہا کہ کیسا کلمہ؟ میں نے کہا کلمہ طیبہ۔ اس بندے نے کہا ’’الااللہ‘‘ لام اول کے زیر کے ساتھ۔میں نے کہا کہ پورا کلمہ پڑھیے! وہ نوجوان حیران ہوگیا اور ادھر ادھر جھانکنے لگا۔ با لاخر مجلس نکاح میں موجود لوگوں نے بآواز بلند کلمہ پڑھ کر اس کو پڑھنے کی تلقین کی مگر وہ بندہ ’’لا الہ الااللہ محمدرسول اللہ‘‘ نہیں پڑھ سکا۔ آخر کار میں نے نورانی قاعدہ کے معصوم بچوںکی طرح حروف کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے کلمہ پڑھوایا اور بعدہ ایجاب و قبول کروائے۔ دوسرا واقعہ اسی مجلس نکاح میں یوں پیش آیا کہ مہر ، مہر فاطمی مقرر ہوئی تھی۔بغرض واقفیت میں نے ایجاب و قبول سے پہلے چند لمحے مہر کی شرعی حیثیت اور مہر فاطمی کی شرعی مقدار کی وضاحت کرتے ہوئے مہر کی کلی یا جزوی نقد ادائیگی کی اہمیت بتائی۔ ابھی بات پوری بھی نہیں ہوئی تھی کہ مہمانوں میں سے ایک دوسرے نوجوان جو شکل صورت سے پڑھے لکھے لگ رہے تھے، بر جستہ کہنے لگے کہ کیا مہر ادا کرنا بھی ضروری ہے؟ اور اس وقت میری حیرت کی انتہا نہیں رہی جب ایک تیسرے مہمان نوجوان یہ کہنے لگے کہ میں دلی میں رہتا ہوں اور بیسیوں نکاح کی مجلس میں شریک ہوا ہوں مگر آج تک کسی نے یہ نہیں بتایا کہ مہر ادا کرنا بھی ضروری ہے۔  رفقائے گرامی ! اپنے اساتذہ سے دوران اسباق ہم سنا کرتے تھے کہ آج بہت سارے مسلمان کلمہ کے بغیر دنیا سے رخصت ہو رہے ہیں اور انہیں بنیادی دینی معلومات تک نہیں ہوتی۔ وہ کہتے تھے: عزیزو! ان کے ایمان و عقائد کی اصلاح و درستگی تم وارثین انبیا کرام پر فرض ہے۔ آج مجھے لگا کہ ہمارے اساتذہ کی روحانی آوازیں مجھ سے افسردگی کے ساتھ پوچھ رہی ہیں کہ اطہر ! کیا یہ سب تمہاری اور تمہاری علماء برادری کی غفلت و بے توجہی کا نتیجہ نہیں ؟
     آج میں اسی سوچ میں تنہا اپنی لائبریری میں اپنے آپ کو کوس رہا ہوں کہ میں نے 40 سال اپنی عمر عزیز کے گنوا دئیے اور ملّت اسلامیہ اور پیارے رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیاری امّت مسلمہ کیلئے کچھ نہ کر سکا۔روز محشر میں آقائے مدنی صلی اللہ علیہ و سلم کو منہ کیسے دکھائیں گے؟    مولانا اطہر القاسمی کو تو اپنی آخرت کی فکر لاحق ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ ان کے جذبہ کو سلامت رکھے اور ان کو امّت مسلمہ تک یہ پیغام پہنچانے کا اجر عظیم عطاء کرے،آمین۔راقم کا حسن ظن یہ کہتا ہے کہ کلمہ طیبہ اور دیگر اسلامی امورسے نا واقف نوجوانوں کی تعدادہزاروں میں ایک دو ہوگی لیکن جس قوم میں شرح خواندگی 50 فیصد سے کم ہو اور جس قوم کے30 فیصد سے زیادہ افراد نے کبھی اسکول اور مدرسے کی صورت نہ دیکھی ہو وہاں اس بات کا اندازہ لگانا مشکل ہے کہ ایسے بے کلمہ مسلمانوں کی صحیح تعداد کیا ہے اسی لئے یہ پیغام کسی شخصِ واحد یا صرف علماء برادری کے لئے نہیں بلکہ تمام ، دینی اور ملّی تنظیموں ، اداروں اور جماعتوں کیلئے ایک دعوت فکر ہے۔
    پورے ملک میں دینی مدرسوںکا ایک جال پھیلا ہوا ہے اور مدرسے والوں کا یہ دعویٰ ہے کہ یہ دین کے قلعہ ہیں۔ انہیں اس بات پر غور کرنا ہوگا کہ ان قلعوں میں کتنے ایسے چور دروازے اب بھی موجود ہیں جن کی حفاظت کے لئے متعین کمزور محافظ اونگھ رہے ہیں؟ 9 دہائیوں سے گاؤں گاؤں قریہ قریہ گھر گھر گشت کرکے ایمان اور یقین کی محنت کرنے والی دینی جماعتوں کو بھی اپنا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ اب تک ہم تمام مسلمانوں تک دین کا کلمہ بھی پہنچانہیں سکے تو وہ فضائل اعمال سے کب واقف ہوںگے؟ اسلام کا بنیادی کلمہ لا الہ الاللہ محمدالرسول اللہ سے مسلمانوں کی نا واقفیت، اقامت دین اور حکومت الٰہیہ کے قیام کا مشن لیکر چلنے والی جماعت اسلامی کے سیکڑوں اجلاس ، سیمینار، سمپو زیم ، اور تربیتی نشستوں پر بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔ملک بھر میں فعال اور خدمت خلق کیلئے مشہور جمعیت العلمائے ہند کیلئے بھی یہ لمحہ فکر ہے کہ اسلام کے ماننے والے بہت سے مسلمان بغیر کلمہ طیبہ پڑھے ہی اس دنیا سے رخصت ہوگئے ہیں۔ جمعیت اہل حدیث کو بھی اس بات پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے کہ مسلمان پہلے کلمہ طیبہ پڑھیں اور اس کے تقاضوں کی تکمیل کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیں۔اہل سنت والجماعت کے ذمہ داروں کو یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ سُنّتوں کا پابند وہی شخص ہے جو پہلے اللہ کی وحدانیت کا اقرار کرے۔ اگر وہ کلمہ طیبہ سے ہی واقف نہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کیسے کریگا؟ تحفظ شریعت کے پاسبانوں کو پہلے وہ سوراخ بند کرنے ہوں گے جن سے پانی اندر داخل ہوکر اسلام کی کشتی کو ڈبونے کا باعث بن رہا ہے۔جس قوم کے افراد شریعت کی بنیاد سے نا واقف ہوں وہ شریعت کی حفاظت کیسے کر سکتے ہیں؟غرض یہ کہ دین اسلام سے جُڑے ہر شخص پر یہ لازم ہو جاتاہے کہ ہر مسلمان کی کلمہ طیبہ سے واقفیت کو یقینی بنائے۔
    ہند میں بسنے والے30 کروڑ مسلمانوں میں سے اگر ایک فیصد لوگ بھی کلمہ سے واقف نہیں تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ30 لاکھ افراد کلمہ نہیں جانتے۔ان میں سے بھی ایک فیصد یعنی 3لاکھ بچے اگر کلمہ طیبہ نہیں جانتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آئندہ3 لاکھ نسلیں بغیر کلمہ کے مسلمان ہوں گی جو تحفظ شریعت کیلئے سب سے بڑا خطرہ ثابت ہوں گی۔ گویا یہ ایک واقعہ قومی ایمرجنسی کا پیش خیمہ ہے جس پر ارباب حل و عقد کو بہت سنجیدگی سے غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ تمام دینی و ملّی جماعتوں، تنظیموں اور اداروں کو اپنے موجودہ پروگرامس کو موقوف کرکے اگلے ایک سال تک صرف ایک ہی مشن، ایک ہی تحریک ’’ کلمہ پڑھاؤ‘‘ پر کام کرنا ہوگا۔ بینر، پوسٹر، ہورڈنگ اور اسٹیکرز اور دیگر تمام وسائل کو استعما ل کر کے اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ گھر گھر ، فرداًفرداً ہر مسلمان تک کلمہ طیبہ پہنچ گیا ہے اور ہر مسلمان یہ جان گیا ہے کہ وہ مسلمان اس لئے نہیں کہ وہ مسلمان ماں باپ کے گھر پیدا ہوا ہے بلکہ اس لئے مسلمان ہے کہ وہ اس بات کا اقرار کر چکا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور حضرت محمد اللہ کے رسولؐ ہیں۔
مزید پڑھیں:- - - - -مسجد اقصٰی ، برکتوں والی سرزمین

شیئر: