غربت، ناچاقی،طلاق ، بیٹی کو میکے پہنچانے والی آزمائشیں
دردانہ پرویز۔ امریکہ
یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاںہے کہ21ویں صدی میں داخل ہوجانے کے باوجود جدید ٹیکنالوجی کو برتتے ہوئے ہماری ذہنی اپچ اس حد تک ترقی نہیں کر پائی کہ خواتین کی سطح پر اس میںتبدیلی لاسکیں جس کی ضرورت دور حاضر کے شہری ماحول میں شدت سے محسوس کی جارہی ہے۔ دیہی خواتین بھی تعلیمی میدان میں نمایاں کامیابیاں حاصل کررہی ہیں لیکن یہ تبدیلیاں اتنے بڑے پیمانے پر نہیں کیونکہ معاشرے کا ایک بڑا طبقہ جو دیہی علاقوں کی خواتین پر مشتمل ہے ، روزمرہ کی سخت مشقتوں کے باوجود تعلیمی طور پر ذہنی شعور کی اس بلندی پر نہیں کہ خود اپنے وہ حقوق جان سکیں جو دین اسلام نے انہیں عطا کئے ہیں۔
بہرحال یہ کہہ سکتے ہیں کہ ملکی سطح پر خواتین کے لحاظ سے تبدیلی یقینا ایک روشن مستقبل کی ضمانت ہے۔ دوسری اہم ذہنی تبدیلی یہ بھی آئی کہ آج کی خواتین نے اپنی محنت کے ذریعے یہ ثابت کردیا کہ وہ زندگی کے ہر شعبے میں قابل قدر بلکہ زیادہ پر اعتمادی اور ذہانت کے ساتھ نہ صرف خود معاشی طور پر مستحکم ہورہی ہیں بلکہ بہن، بیوی، بیٹی کی سطح پر کفالت کی ذمہ داریاں بھی اٹھا رہی ہیں۔ وہ اس سوچ کو بدلنے میں کامیاب ہورہی ہیں کہ عورت کا مقام صرف گھرکی چہار دیواری اورکام بچو ں کی پرورش تک ہی محدود ہے۔اب تیسرا پہلو جو اجاگر ہورہا ہے وہ معاشرتی رویے اور ان کی وجوہ ہیں:
بیٹی کا پہلا گھر اس کا میکا ہوتا ہے لہٰذا اگر والدین اپنی ذمہ داری پوری کرنے کے قابل ہوجائیں اور بیٹی میں خود اعتمادی کا جوہر پیدا کردیں ۔ آج کی لڑکیوں کو تمام تر تعلیمی سہولتیں اور شفقت و محبت دینے کے باوجود بچپن سے ہی انہیں نفسیاتی طور پر یہ باور کرایا جاتا ہے کہ تمہیں ہر صورت سہارے کی ضرورت ہے۔ بس یہیں سے والدین اس کی خود اعتمادی کو ضرب لگادیتے ہیں۔
یقینا اس میں کوئی شک کی گنجائش نہیں کہ باپ، بھائی ، شوہر اوردیگر محرم رشتے لڑکی کی چادر اور چہار دیواری کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی مانند ضروری ہیں پھر کیا وجوہ ہیں کہ درجہ بددرجہ یہ تمام رشتے اپنی ذمہ داریاں اور کسی نہ کسی سطح پر آکر اپنی افادیت کھوتے جارہے ہیں؟ یہ صورتحال لمحہ فکریہ ہے۔
والدین جو لڑکی کیلئے تناور درخت کی مانند ہوتے ہیں، اسے سردو گرم سے بچاتے بچاتے بڑھاپے کی سرحدوں کو چھونے لگتے ہیں۔وہ خود جوان بیٹوں کے ساتھ رہتے ہوئے اپنے ذاتی گھر رکھنے کے باوجود اپنے آشیانوں میں اجنبی بنتے چلے جاتے ہیں ۔ایسے میں وہ سب کچھ دیکھتے ، سمجھتے ہوئے بھی مصلحت کوشی کی روش اختیار کرکے صرف تماشائی بن جاتے ہیں۔
صاحبزدگان کی یہ نوجوان نسل ہر نئے کلچر کو تیزی سے اپناتے ہوئے نئی دنیا کی مسافر نظر آتی ہے۔ انتہائی فلسفیانہ انداز میں بزرگوں کو نئی تہذیب کا درس دیتی نظر آتی ہے۔ قصور نوجوانوں کا بھی نہیں کیونکہ انہیں تربیت کچھ اس انداز سے دی جاتی ہے کہ بچپن سے ہی انہیں بیٹیوں کے مقابلے میں برتری کا احساس دلایاجاتا ہے چنانچہ وہ عملی زندگی میں آنے کے بعد اپنے آپ کو عقل کل سمجھنے لگتے ہیں۔ ایسے میں والدین کاگھر جہاں سب نے ایک ساتھ زندگی کے مراحل طے کئے ہوتے ہیں ، لڑکیوں کیلئے میکا اور لڑکوں کے لئے مستقل سکونت گاہ بن جاتا ہے۔ انجام کار بیٹے مزید خود اعتمادی میں مبتلا ہو جاتے ہیںجبکہ بیٹیاں مہمان کی حیثیت اختیار کر جاتی ہیں۔ وہ صرف مہمانوں کے حقوق ہی لے پاتی ہیں اورکہیں یہ بھی نہیں حاصل کر پاتیں۔ ان بیٹیوں پر اگرکوئی آزمائش آجائے مثلاً طلاق ، بیوگی، میاں بیوی کی ناچاقی، غربت اور اسی جیسی بے شمار مصیبتیں سر اٹھالیںتو لڑکی پلٹ کر میکے کی دہلیز پر جاکھڑی ہوتی ہے مگر وہاں تو منظر نامہ تبدیل ہوچکا ہوتا ہے۔ والدین جو کبھی لڑکی کیلئے شجرِسایہ دارکی حیثیت رکھتے تھے، خود اپنے حقوق کی پامالی پر نم دیدہ نظر آتے ہیں ۔ وہ خود کو محرم بھی تصور کرتے ہیں کیونکہ انہوں نے اپنے ہی گھر میںبیٹیوں کو بیٹوں کے برابر انصاف نہیں دیا ہوتا لہٰذاوہ کف افسوس ملنے کے سواکچھ نہیں کر سکتے ۔ یہی وہ مرحلہ ہوتا ہے جہاں سے بیٹیوں، ما¶ں اور بہنوں کی آزمائش کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔
دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اس میں خواتین کے حقوق کا مکمل پیکیج ہے ۔ اسے سمجھنے اور بتانے کی ذمہ داری صرف واعظین پر ہی عائد نہیں ہوتی بلکہ یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ خواتین کے بارے میں دین اسلام نے جو کچھ فرمایا ہے اس تعلیم کو پڑھا اور سمجھا جائے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ قرون خیر میں خواتین کا جو کردار تھا اور جس طرح سے وہ زندگی کے مختلف مراحل میں اسلام کے قائم کردہ اصول و ضوابط کے مطابق ایک بھرپور کردار ادا کررہی تھیں انہیں تمام تفاصیل کے ساتھ اُجاگر کیا جائے تاکہ آج کی خواتین بھی مثالی ثمرات سے مستفید ہوسکیں ۔
آج خواتین کو گھر بلکہ کچن تک محدود رہنے پر زور دیا جاتا ہے ۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ یہ کام بھی اہم ہے مگر اس کے ساتھ خواتین کی ذہنی صلاحیتوں کا استعمال اور دیگر سرگرمیاں، عورت اور اس کی اولاد کی ذہنی نشوونما ، علمی ترقی اور اس سے آگے قوموں کی بقاءکی ایک اہم ضرورت بن سکتی ہے۔
عورت کو اعلیٰ تعلیم دلا کرمعاشی سہارے کے نام پر اسے ملازمت کیلئے مجبورکرنا ذہنی پستی کی علامت ہے ۔ عورت کی تعلیم کو اسی لئے ضروری سمجھا جاتا ہے کہ وہ تنگدستی میں شوہر کی مدد کرنے کے لئے ملازمت کر سکے گی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ والدین بیٹیوں کو تعلیم دلانے کے ساتھ ساتھ ان میں خود اعتمادی پیدا کریں۔انہیں ایسی ہنرمند تعلیم دلائیں جو مستقبل کی آزمائش میں ان کیلئے مضبوط سہارا بن سکے ۔ بیٹیوں اور بیٹوں کے ساتھ برابری کا سلوک کریں۔بیٹیوں کو وہ اعتماد دیں کہ وہ میکے سے رخصت ہونے کے بعد دوبارہ مہمان بن کر نہیں بلکہ بیٹوں کی طرح پورے اطمینان و سکون کے ساتھ جب دل چاہے، آئیں اور رہیں۔ اگرہم آج ہی سے یہ تبدیلی لانا شروع کردیں تو وہ دن دور نہیں جب حقوق نسواں کی تمام انجمنیں دم توڑ جائیں گی کیونکہ وہ ہماری اور آپکی کوتاہیوں کے سبب ہی سرگرم عمل ہیں۔