Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بے گناہی کا کرب

دہشت گردی کے الزام میں بے گناہوں کو ماخوذ کرنے والے پولیس اہلکاروں کو محض اس لئے سزا نہیں ملتی کہ کہیں ان کا مورال ڈائون نہ ہوجائے

* * * *

معصوم مرادآبادی
  یہ کہانی ایک ایسے مظلوم نوجوان کی ہے جس کی زندگی کے 14برس پولیس نے جیل کی سلاخوں کے پیچھے برباد کردیئے۔اس دوران نہ صرف یہ کہ اس کی پوری جوانی جیل میں گزر گئی بلکہ اس کی غیر موجودگی کا دکھ برداشت نہ کرپاکر اس کے والد اللہ کو پیارے ہوگئے اور ماں ایسی بیمار ہوئی کہ ہمیشہ کیلئے قوت گویائی سے محروم ہوگئی۔ جی ہاں ہم بات کررہے ہیں دہلی کے محمد عامر کی جن کے بینک اکائونٹ میں حال ہی میں اچانک 5لاکھ روپے کی رقم کا اضافہ ہوا ہے۔ یہ رقم انہیں دہلی پولیس نے معاوضے کے طور پر انتہائی خاموشی کے ساتھ ادا کی ہے اور اس کی کوئی پبلسٹی نہیں کی گئی ۔ یہ وہی پولیس ہے جو اپنے چھوٹے سے چھوٹے کام کی تشہیر کرتی ہے اور لوگوں کو اپنے انسان دوست ہونے کا یقین دلاتی ہے۔ صرف چند اردو اخبارات تک اس رقم کی ترسیل کی خبر بھی محمد عامر کے توسط سے ہی پہنچی۔ یہ رقم محمد عامر کی جوانی کے ان 14قیمتی برسوں کا معاوضہ تو ہرگز نہیں ہوسکتی اسی لئے وہ چاہتے ہیں کہ جن پولیس افسران نے انہیں دہشت گردی کے جھوٹے مقدمات میں پھنسایا تھا،انہیں سزا ملنی چاہئے تاکہ مستقبل میں پولیس کا کوئی افسر ایسی ہمت نہ کرسکے اور کسی کی زندگی سے یوں کھلواڑ نہ کرسکے۔
    یوں تو محمد عامر کی داستان 2016میں اس وقت اخبارات میں نمایاں طورپر شائع ہوئی تھی‘ جب انہیں عدالت نے تمام الزامات سے بری کیا تھا۔ اس خبر کی اشاعت کے ساتھ ہی قومی میڈیا میں اداریے اور مضامین بھی شائع ہوئے تھے کہ ہمارے قانونی نظام کے پاس ایسا کیا طریقہ کار ہے کہ جن لوگوں کو جھوٹے مقدمات میں پھنسایا جاتا ہے وہ جب باعزت بری ہوں تو انکی بازآبادکاری کا کوئی انتظام ہو اور انکی تباہ شدہ زندگی میں دوبارہ خوشیاں واپس لائی جائیں۔اسی موقع پر یہ سوال بھی اٹھایا گیا تھا کہ آخر ان لوگوں پر روک لگانے کا کیا طریقہ ہے جو قانون کی وردی پہن کر خود کو قانون سے اوپر سمجھتے ہیں اور بے گناہ لوگوں کی زندگیاں برباد کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے۔آج بھی ملک کی مختلف جیلوں میں سیکڑوں مسلم نوجوان دہشت گردی کے جھوٹے الزامات کے تحت بند ہیں۔ ان میں سے بیشتر ایسے ہیں جن پر اب تک الزامات بھی طے نہیں ہوپائے اور نہ ہی ان کے خلاف فرد جرم داخل ہوسکی لیکن اسکے باوجود وہ برسوں سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں۔ دہشت گردی کا الزام ایک ایسا الزام ہے کہ جس آدمی پرایک بار لگ جائے وہ ساری زندگی اس کا پیچھا کرتا ہے۔ہمارا قانونی نظام اتنا ناقص ہے کہ جب کوئی اس الزام سے بری ہوتا ہے تو اس کی باز آباد کاری کاکوئی انتظام نہیں ہوتا۔ستم یہ ہے کہ دہشت گردی کے الزام میں بے گناہوں کو ماخوذ کرنے والے پولیس اہلکاروں کو محض اس لئے سزا نہیں ملتی کہ کہیں ان کا مورال ڈائون نہ ہوجائے۔افسوس کہ ہمارا قانونی نظام بے گناہوں کو پابند سلاسل کرنے میںفخر محسوس کرتا ہے جبکہ انصاف کی بنیادی روح یہ ہے کہ 100گناہ گار چھوٹ جائیں لیکن کسی بے گناہ کو سزا نہ ملے۔
    ہم بات کررہے تھے دہلی کے محلہ نیاریان کے رہنے والے محمد عامر کی۔ گزشتہ ہفتے جب اچانک ان کے اکاؤنٹ میں 5لاکھ روپے کی رقم پہنچی تو وہ کچھ حیرت زدہ ضرور ہوئے لیکن انہیں جلد ہی یہ معلوم ہوگیا کہ یہ رقم دہلی پولیس نے ان کے اکاؤنٹ میں بطور معاوضہ جمع کی
 ہے۔ محمد عامر کو اس بات کا قلق ہے کہ ان کی زندگی کے قیمتی ترین 14برس غیر قانونی حراست میں برباد کرنے والی پولیس نے نہ تو ان سے معافی مانگی ہے اور نہ ہی ندامت کا اظہار کیا ۔ یہ رقم بھی دہلی پولیس نے انہیں قومی انسانی حقوق کمیشن کے حکم پر ادا کی ہے۔ ظاہر ہے پولیس کسی پر کتنا ہی ظلم ڈھالے مگر شرمندگی اور ندامت کے الفاظ اس کی ڈکشنری میں موجود نہیں ہوتے۔ 1997میں جب دہلی پولیس نے محمد عامر کو دہشت گرد قرار دے کر اغوا کیا تھا تو ان کی عمر محض 18برس تھی۔ انہیں پورے 14برس دہشت گردی کے جھوٹے الزامات کے تحت سلاخوں کے پیچھے رکھا گیا۔ پولیس ان پر کوئی ایک الزام بھی ثابت نہیں کرسکی۔ سخت قانونی کارروائی کے بعد 2012 میں دہلی ہائی کورٹ نے انہیں تمام الزامات سے بری کرتے ہوئے ان کی فوری رہائی کے احکامات جاری کردیئے۔ اس سلسلے کی خبریں اخباروں میں پڑھ کر قومی کمیشن برائے انسانی حقوق نے از خود نوٹس لیا اور دہلی پولیس اور دہلی سرکار کو نوٹس جاری کرکے انہیں 5لاکھ روپے معاوضہ ادا کرنے کا حکم دیالیکن اس حکم کی تعمیل کرنے میں بھی دہلی پولیس نے 2سال سے زیادہ کا عرصہ گزار دیا۔
    محمد عامر نے اخبارنویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ معاملہ یہاں پر ختم نہیں ہوتا بلکہ یہ لڑائی کا آغاز ہے اور مجھے اس لڑائی کو آگے لے جانا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ مجھے سرکاری ملازمت دی جائے اور جن پولیس افسران نے فرضی گرفتاری کی تھی ان کی جوابدہی طے کرکے انہیں قرار واقعی سزا دی جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ میری زندگی کے قیمتی 14برسوں کی تلافی 5لاکھ تو کیا 5 کروڑ روپے سے بھی نہیں ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ صرف میں ہی نہیں بلکہ مجھ جیسے ہزاروں بے قصور مسلم نوجوانوں کو میری ہی طرح فرضی مقدمات میں ملوث کرکے جیلوں میں رکھاگیا ہے۔ واضح رہے کہ یہ پہلا موقع ہے کہ پولیس نے کسی ملزم کی بے گناہی ثابت ہونے کے بعد 5 لاکھ روپے کی رقم بطور معاوضہ ادا کی ہے۔ اس سے قبل حیدرآباد کی مکہ مسجد میں ہوئے دھماکہ کے ملزمین کو بے قصور ثابت ہونے پر30,30 ہزارروپے ادا کئے گئے تھے۔ مکہ مسجد دھماکے میں سوامی اسیما نند اور دیگر بھگوا دہشت گردوں کو قصوروار پایاگیا تھا لیکن گرفتاریاں بے قصور مسلم نوجوانوں کی ہوئی تھیں۔ اسی طرح مالیگاؤں بم دھماکوں کے سلسلے میں بھی مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیاگیا تھا لیکن بعد کو انہیں بے قصور قرار دے کر رہا کردیاگیا۔ ان دھماکوں میں بھی بھگوا بریگیڈ کے لوگ شامل تھے۔ محمد عامر کا کہنا ہے کہ معاوضہ کے طورپر ملنے والی 5 لاکھ کی رقم میں سے وہ کچھ حصہ غریب بچوں کی تعلیم پر خرچ کریں گے اور کچھ حصہ بے قصور لوگوں کو جیل سے رہا کرانے میں سرگرم تنظیموں کو دیں گے۔
مزید پڑھیں:- - - -  -ن لیگ کے حلیف حکمران جماعت کیلئے بوجھ

 

شیئر: