Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شام پر محدود حملے کے بعد کیا ہوگا؟

 عبدالرحمن الراشد ۔ الشرق الاوسط
شام میں کیمیائی اسلحہ کی تنصیبات پر امریکہ، برطانیہ اورفرانس کے حملے سے قبل یہ افواہ پھیل گئی تھی کہ شامی اور روسی حکومت نے ایران اور اسکی ملیشیاﺅں کو مجوزہ حل کے تحت شام سے آﺅٹ کرنے کی پیشکش کردی ہے۔افواہ کے تحت یہ بھی بتایا گیاتھا کہ اگر امریکہ اور اسکے اتحادی شامی تنصیبات پر حملہ نہ کریں تو ایسی صورت میں نئی پالیسی اپنائی جاسکتی ہے۔
بفرض محال اگر اس قسم کی کوئی پیشکش کی جائے تو کیا وہ قابل قبول ہوسکتی ہے؟ 
بلاشبہ اس قسم کی پیشکش محدود حملے سے زیادہ بہتر ہوگی تاہم مسئلہ یہ ہے کہ تینوں فریق دروغ بیانیوں کی مارکیٹنگ کے عادی بن چکے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ روسی بھی شام اور ایران کے خیالات کی مدد کے باعث اپنا اعتبار کھوچکے ہیں۔ روسیوں نے دوما پر کیمیائی اسلحہ حملے کے حوالے سے وہی پرانی افسانوی کہانیاں بیان کرنا شروع کردی تھیں کہ مذکورہ حملہ شامی حکومت کی اپوزیشن نے اپنے اوپر از خود کیا ہے اور اقوام متحدہ کو اس کی فیلڈ تحقیقات کرنی ہونگی۔ روسی یہ مطالبہ دہرا کر وقت گنوانے اور بحران کو لایعنی بنانے کا چکر چلا رہے تھے۔
اعتبار کا رشتہ نہ ہونے کی صورت میں سیاسی اسکیموں یا حلوںکی بابت بدی کے محور کے ساتھ کوئی ربط و ضبط نہیں ہوسکتا۔ غالب گمان یہی ہے کہ اس قسم کی باتیں مسکن دواﺅں کا درجہ رکھتی ہیں، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ شامی حکومت ستمبر 2013ءکے دوران اس وقت عسکری پابندیوںسے جان بچانے میں کامیاب رہی جب روس نے تجویز کیا کہ وہ اپنے کیمیائی ہتھیار اقوام متحدہ کے انسپکٹرز کے حوالے کردے۔ اس پر عمل درآمد ہوا۔ شام نے کیمیائی ہتھیار اقوام متحدہ کو پیش کردیئے۔ دعویٰ کیا گیا کہ شام کے پاس اس حوالے سے جو کچھ تھا وہ سب کچھ سپرد کردیاگیا ہے۔ اب انکشاف ہوا ہے کہ اس کے خفیہ گوداموں میں اب بھی کیمیائی اسلحہ کے ذخائر موجود ہیں۔
اس جعلسازی کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ ایرانی حکومت نتائج کی پروا کئے بغیر کہیں تک بھی جانے کیلئے تیار ہے۔ دراصل یہی شامی حکومت اور اسکی قدیم خصوصیات کی اصل پہچان ہے۔ دنیا سمجھتی رہی کہ وہ بدل چکا ہے۔ حقیقت اس کے برخلاف ہے۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوچکی ہے کہ انتقام اور بیح کنی شام اور ایران کے حکمرانوں پر سوار ہے وگرنہ دوما میں نہتے شہریوں کے خلاف اعصاب شکن گیس کا استعمال کیونکر کیا گیا؟ ایسا کرنے کی کوئی مجبوری نہیں تھی۔ اس جنگ میں ایرانی پاسداران انقلاب کے جنرلوں کاکردار اہم ہے۔ حالیہ3 برسوں کے دوران شامی معرکوں کی قیادت یہی کرتے رہے ہیں۔ یہ لوگ وحشیانہ طور طریقوں کی شہرت رکھتے ہیں۔
اب ہمارا موضوعِ بحث یہ ہے کہ کیمیکل ہتھیار کی تنصیبات پر فوجی حملہ کردیا گیا، اسکا مقصد پورا ہوگیا مگر حق اور سچ یہ ہے کہ اس حملے سے نہ شامی نظام کمزور ہوا اور نہ ہی اسکی افواج پر کوئی اثر پڑا۔ امریکی صدر نے یہ حملہ صرف یہ جتانے کیلئے کیاکہ وہ جو کچھ کہتے ہیںاسکا مطلب سمجھتے ہیں۔
اب ہمارے سامنے 2پیچیدہ مسئلے ہیں۔ ایک تو ایران کےخلاف امریکی پابندیاں۔ یہ معرکہ ابھی شروع ہی نہیں ہوا۔ دوم یہ کہ شام کی خانہ جنگی کی بندش کا سمجھوتہ طے پائے۔ اس عمل سے شام میں حل کی بہترین صورتحال پیدا ہوگی اور عراق و لبنان پر ایران کا تسلط کم ہوگا۔ ایران پابندیوں کے بغیر خطے میں مسائل برپا کرتا رہیگا۔ 
کیا ہم یہ بات مان سکتے ہیں کہ شامی حکومت ایرانی پاسداران انقلاب اور اسکی ملیشیا کو شام سے نکالنے کی قدرت رکھتی ہے؟بہت مشکل ہے۔ انارکی نے شام کو بے چینیوں کا مرکز بنادیا ہے۔ یہ صورتحال ایران اور روس دونوں کیلئے موافق ہے۔ یہ دونوں ایسی صورتحال کے چکر میں ہیں کہ جس کے بل پر یہ خطے کے مسائل کے فریق بنے رہیں اور معرکوں کی آگ بھڑکانے اور بجھانے کا ڈھونگ رچتے رہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: