معاشرے میں خواتین کی بے توقیری عروج پر
جمعرات 26 اپریل 2018 3:00
آج کل کے حالات دیکھ کرزمانہ جاہلیت کا گمان ہوتا ہے،خواتین کی تعلیم اور دیگر معاملات میں معاشرتی آداب بھی بھول جاتے ہیں، پڑھے لکھے لوگ بھی ازلی جاہلیت کا مظاہرہ کرتے ہیں
عائشہ عباسی حیات۔اسلا م آباد
اسلام نے عو رتوں کو جو حقو ق دیے ہیں کسی اور مذہب نے نہیں دیے۔زمانہ جاہلیت میں عو رتوں کو وراثت تک کا حق حا صل نہ تھا اسلام نے آکر عو رتوں کو ان کے بنیادی حقو ق دلوائے۔قرآن کریم میں ہر چیزواضح انداز میں بیان کی گئی ہے مگر آج کل کے دور میں نہ تو مرد عورتوں کے حقو ق کا خیال رکھتے ہیں نہ عو رتوں کو اپنے حقو ق کا اتنا علم ہے۔افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج کل کے حالات دیکھ کر زمانہ جا ہلیت کا گمان ہوتا ہے،مرد اس چیز کا تو بہت خیال رکھتے ہیں کہ ان کی بیو یوں بہنوں کو کوئی نظر اٹھا کر نہ دیکھے مگر جب ان کے بنیا دی حقو ق جیسے تعلیم ،وراثت میں ان کا حصہ اور بہت سے مسائل کی بات آتی ہے تو وہ اسلام تو کیا معاشرتی آداب بھی بھو ل جاتے ہیں۔
اسلام میں نکا ح کے جواز کے لیے لڑ کیوں کی رضا مندی ضروری ہے۔ آ پؐ نے فر ما یا کہ’’ کنواری عو رتوں سے اجازت لی جا ئے اور بیوہ سے اس کا حکم طلب کیا جائے‘‘۔
آپ شکے زمانے میں اس قسم کا ایک واقعہ پیش آیا۔ عو رتوں کیلئے حضرت عائشہ ؓ کا حجرہ مبا رک مختص تھا ۔آپتشر یف فرما نہیں تھے ایک لڑکی آئی، حضرت عائشہ ؓ نے اس کو بٹھا لیا۔ جب آپ تشریف لائے صورت واقعہ عر ض کی ۔آپنے لڑکی کے باپ کو بلا یا اور لڑکی کو اپنا مختار آپ بنا یا۔ یہ سن کر لڑکی نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میرے با پ نے جو کچھ کیا ۔میں اب اس کو جا ئز ٹھہراتی ہوں۔ میرا مقصد صرف یہ تھا کہ عو رتو ں کو اپنے حقو ق معلو م ہو جا ئیں۔
مگر آج کل کے اس دور میں لڑکیو ں کی اجازت طلب کرنا تو ہین سمجھا جاتا ہے۔ لڑ کی مانے یا نہ مانے اس سے کیا فرق پڑتا ہے، لڑ کیوں سے کون پو چھتا ہے وغیرہ غیرہ جیسے سوالات سننے کو ملتے ہیں۔ بہت سے لو گ جو خود کو پڑھا لکھا کہتے تھکتے نہیں اس طرح کے معا ملات میں ازلی جا ہلیت کا مظا ہرہ کرتے ہیں۔ صرف یہی نہیں زند گی کے تقر یبا ً ہر معا ملے میں مرد حضرات اپنی اجا رہ داری د ھو نستے نظر آتے ہیں۔ لڑ کیو ں کی تعلیم کے معا ملے میں بھی اگر دیکھیں تو لو گوں نے اپنے ہی قا عدے قوانین بنا لیے ہیں۔ اگر چہ ہم دیکھتے ہیں کہ عو رتوں کی تعلیم پر تو جہ دی جاتی ہے وہیں دوسری طرف استحصا ل بھی نظر آتا ہے۔لو گ کہتے ہیں لڑکیاں تعلیم حاصل کر کے کیا کریں گی؟ ان کی تو ویسے بھی شا دی ہو جانی ہے مگر ان سے کو ئی پو چھے کیا تعلیم صرف نو کری کے لیے حا صل کی جاتی ہے اور پھر جب بچو ں کی تربیت پر حرف آجائے تو کہتے ہیں یہ تو ہے ہی جاہل، اس کو کیا پتہ تربیت کیسے کرتے ہیں۔ بھئی آپ جیسے لوگ ہی تو لڑ کیو ں کی تعلیم کی مخا لفت میں سب سے پہلے میدان میں اترتے ہیں ۔جیسا کہ حد یث میں ہے کہ تعلیم حا صل کرنا ہر مسلمان مردعو رت پر فرض ہے۔ حضرت عا ئشہ صد یقہ ؓ کئی ہزار احا دیث کی راوی ہیں ۔ آپؓ نہ صرف عو رتوں کی رہنماتھیں بلکہ آپ کی وفات کے بعد بھی اگر صحا بہ کرام ؓ کو کسی معا ملے کے بارے میں علم نہ ہوتا تو وہ آپ ؓ سے دریا فت کرتے تھے۔ اسلا م تو بہت کھلا اور روشن مذہب ہے مگر افسوس کہ ہم اس کو بھی اپنے مقا صد اور فو ائد کے لیے ہی استعمال کرتے ہیں ۔ بعض اوقات عو رتوں کو گھر سے باہر نکل کر نو کری کرنے سے بھی روک دیا جاتا ہے حا لا نکہ اسلام پردے کے ساتھ عو رتوں کو ہر کام کرنے کی اجازت دیتا ہے ۔ام المو منین حضرت خدیجہ ؓ بھی تجا رت کے پیشے سے دابستہ تھیں اس لیے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ عو رتو ں کو اسلا م کچھ کرنے کی اجا زت نہیں دیتا ۔
عورتوں پر گھر یلو تشدد کی ہر دن ہی کہا نیاں سننے کو ملتی ہیں، مرد چھو ٹی چھو ٹی بات پر بیو یوں کو تشدد کا نشانہ بنانے سے گریز نہیں کرتے جیسے یہ تو ان کے لیے عام سی بات ہے۔ جس کواسلام میں سختی سے منع کیا گیاہے۔
حدیث میں ہے کہ مسلمانوں میں کامل ترین ایمان ان لو گو ں کا ہے جو ان میں اخلاق کے اعتبار سے سب سے اچھے ہوں اور تم میں بہتر ین مسلمان وہ ہیں جو اپنی بیو یوں کے لیے بہترین ہوں(ترمذی)۔
حضر ت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ نے ارشاد فر ما یا کہ لو گو ! بیو یوں کے ساتھ بہتر سلو ک کے بارے میں میری وصیت مانو ( یعنی میں تم کو وصیت کرتا ہوں کہ اللہ کی ان بندیوں کے ساتھ اچھا سلو ک کرو،نر می اور مدارت کا برتائو رکھو) ان کی تخلیق پسلی سے ہوئی ہے( جو قدرتی طور پے ٹیڑ ھی ہوتی ہے ) اور زیادہ کجی پسلی کے اوپر کے حصے میں ہوتی ہے،اگر تم اس ٹیڑھی پسلی کو زبر دستی با لکل سیدھا کرنے کی کو شش کرو گے تو وہ ٹوٹ جائے گی اور اگر اسے یو نہی اپنے حال پر چھو ڑ دو گے (اور اسے درست کرنے کی کوشش نہ کرو گے) تو پھر وہ ہمیشہ ویسی ہی ٹیڑ ھی رہے گی۔ اس لیے بیو یوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی میری وصیت قبو ل کرو۔(بخاری و مسلم)
اس چیز کا پڑھے لکھے ہونے سے کچھ حد تک کو ئی تعلق نہیں۔ دنیا کے وہ ممالک جنہیں ہم ترقی یافتہ سمجھتے ہیں انہو ں نے بے شک سا ئنس اور ٹیکنا لو جی کی دنیا میں سب کو پیچھے چھو ڑ دیا ہے لیکن اگر ان کے بھی عو رتوں کے ساتھ رویے کو دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ان کی سو چ وہیں کی وہیں ہے ۔وہ بظا ہر تو عو رتوں کی عزت کرتے ہیں لیکن اصل حا لات اس کے بہت مختلف ہیں۔ عو رتوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنانا عام سی بات ہے۔ اس کے علاوہ ان کا معاشی استحصال بھی عام سی بات ہے۔ اسے (gender pay gap) کہتے ہیں۔ عو رتیں بے شک مر دوں کے مقا بل انہی جتنا کام کرتی ہیں لیکن انہیں مردوں کے مقا بلے میں بہت کم تنخواہ ادا کی جاتی ہے اس کے لیے بہت سے مغر بی مما لک میں آواز بھی اٹھی ہے۔ ہمارا تو مذہب عو رتوں کو جتنے حقو ق دیتا ہے اس کے بعد عو رتوں پر تشدد اور مذ ہب کو صرف ا پنے مقا صد کے لیے استعمال کرنا جا ہلیت اور مذ ہب سے دوری ہے۔