Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قرضہ لینے دینے والے قانون شریعت کی پابندی کریں

مکہ مکرمہ .... مسجد الحرام کے امام وخطیب شیخ ڈاکٹر خالد الغامدی نے فرزندان اسلام کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ قرضہ لینے دینے والے قانون شریعت کی پابندی کریں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں سب سے طویل آیت قرض ہی کے بارے میں نازل کی ہے۔ یہ سورة بقرہ کے آخر میں ہے اور اسے آیت الدین یعنی قرضے والی آیت کے نام سے جانا پہچانا جاتا ہے۔ انہوں نے ایمان افروز روحانی ماحول میں جمعہ کا خطبہ دیتے ہوئے بتایا کہ قیامت کے دن 3 طرح کے اعمال نامے پیش کئے جائیں گے۔ ایک تو ان لوگوں کا ہوگا جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کے جرم کے مرتکب ہوئے ہونگے۔ ان لوگوں کی مغفرت کبھی نہیں ہوگی۔ دوسرا اعمال نامہ ایسے لوگوں کا ہوگا جس پر اللہ تعالیٰ توجہ نہیں دیگا۔ یہ ایسے لوگوں کا اعمال نامہ ہوگا جنہوں نے اپنے اوپر ظلم کیا ہوگا۔ یا اپنے اور رب کے درمیان ظلم کا معاملہ کیا ہوگا۔ تیسرا اعمال نامہ ایسے افراد کا ہوگا جس پر اللہ تعالیٰ اس وقت تک معافی نہیں دیگا تا وقتیکہ بندے ہی معاف نہ کردیں۔ یہ بندوںکی جانب سے بندوں کی حق تلفی والے اعمال نامے ہونگے۔ اللہ تعالیٰ جب تک داد رسی کرنے والے بندوں کو انصاف نہیں دلادے گا اس وقت تک یایہ اعمال نامے بند نہیں ہونگے۔ اگرکسی جانوریا پرندے کا بھی کسی نے حق مارا ہوگا تو وہ بھی اسے ادا کرنا ہوگا۔ امام حرم نے بتایا کہ عام طور پر بندوں کے حقوق کے معاملات بڑے سنگین ہوتے ہیں۔ زیادہ تر حق تلفیاں قرضو ںکے باب میں ریکارڈ کی گئی ہیں۔ ایک شخص قرض لے لیتا ہے ادا نہیں کرتا۔ اسی طرح بعض لوگ قرض دیدیتے ہیںاور اصل پونجی سے زیادہ وصول کرنے کے چکر میں پڑ جاتے ہیں۔ مسلمان کا فرض ہے کہ وہ کسی کا معمولی سا حق بھی اپنے ذمہ نہ رکھیں۔ یاد رکھیں کہ اگر کسی نے اپنی طاقت ، جاہ و منصب، اثر و نفوذ اور دنیاوی ہیبت کی بنیاد پر کسی کا حق مار لیا تو قیامت کے دن اسے الگ صف میں کھڑا کیا جائیگا اور اسکا حساب بڑا کڑک ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کے یہاں قرضوں کا معاملہ بیحد سنگین ہے۔ اسکی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ارشاد کا مفہوم ہے کہ اگر کوئی شخص راہ خدا میں شہید کردیا گیا ہو پھر زندہ کرکے اسے شہید کیا گیا ہو پھر زندہ کرکے اسے شہید کردیا گیا ہو اور اسکے ذمہ کسی کا قرض ہو تو قرضہ ادا کرنے سے قبل اسے جنت نصیب نہیں ہوگی۔ امام حرم نے توجہ دلائی کہ حالیہ ایام میں قرضے لینے دینے کی سہولتیں بڑھ گئی ہیں۔ بعض لوگ بلا ضرورت قرضے لیتے ہیں اور ادائیگی میں ٹال مٹول سے کام لیتے ہیں۔ ایسا کرنا درست نہیں۔ انسان کو اپنے اخراجات اور آمدنی میں توازن پیدا کرنا چاہئے۔ امام الغامدی نے کہا کہ اسلامی شریعت کی خوبی یہ ہے کہ لوگوں کے حقوق اور دولت کی حفاظت کے احکام بھی نازل کئے ہیں ا ور آداب بھی۔ اس بات کی ترغیب دی گئی ہے کہ اگر کسی شخص نے کسی سے قرضہ لیا ہو تو وہ قرضہ واپس کرتے وقت اپنی جانب سے بطور تحفہ کوئی چیز پیش کردے اور اس طرح قرضہ دینے والے کا دل جیت لے۔ دوسری جانب قرضہ دینے والے کو کہا گیا ہے کہ وہ کسی بھی حالت میں اصل رقم سے زیادہ کسی بھی طرح وصول کرنے کے چکر میں نہ پڑے۔ اسلام نے خوشحال لوگوں کو قرضے دینے کی ترغیب دی ہے۔ اس پر ثواب کا وعدہ کیا ہے۔ قرضہ لینے والوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ مقررہ وقت پر قرضہ ادا کرنے کا اہتمام کریں اور قرضہ دینے والے کو کسی طرح سے پریشان نہ کریں۔ دوسری جانب مدینہ منورہ میں مسجد نبوی شریف کے امام و خطیب شیخ ڈاکٹر علی الحذیفی نے جمعہ کا خطبہ دیتے ہوئے کہا کہ نادانی اور اسکے اثرات سے بچنے کیلئے مفید علم سیکھنا ضروری ہے۔ انہوں نے کہاکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے جو وعدے کئے ہیں وہ پورے کریگا۔ اللہ کا وعدہ غلط نہیں ہوسکتا۔ اللہ تعالیٰ انسان کو طرح طرح سے آزماتا ہے۔ کبھی نفع بخش نعمتیں عطا کرکے آزمائش میں ڈالتا ہے اور کبھی نقصان دہ صورتحال پیدا کرکے اس کے صبر کا امتحان لیتا ہے۔ انہوں نے نصیحت کی کہ تمام مسلمان مفید علم حاصل کرکے جہالت کے سنگین نتائج سے خود کو بچانے کی کوشش کریں اور اچھے کام کرکے ظلم سے اپنی حفاظت کریں۔

شیئر: