پیر 30اپریل 2018ءکو سعودی عرب سے شائع ہونےوالے اخبار ”الریاض“ کا اداریہ
امریکی وزیر خارجہ کی طرف سے پہلے غیر ملکی دورے کیلئے سب سے پہلے سعودی عرب کا انتخاب اتفاقی واقعہ نہیں۔ان سے قبل امریکی صدر ٹرمپ نے بھی اپنے پہلے غیر ملکی دورے کیلئے سعودی عرب کا ہی انتخاب کیا تھا۔ یہ دونوں دورے طے شدہ منصوبہ بندی کے تحت کئے گئے ہیں۔ یہ دورے اپنے اندر بڑے معنی رکھتے ہیں۔ غوروفکر کے طلب گار ہیں۔ سعودی عرب اور امریکہ کے تعلقات بلا استثنیٰ تمام شعبوں کا احاطہ کئے ہوئے ہیں۔ دونوں کے درمیان بڑی حد تک ہم آہنگی ہے۔
سعودی وزیر خارجہ اور امریکی وزیر خارجہ کی مشترکہ پریس کانفرنس نے دونوں ملکوں کے درمیان مشترکہ غیر متزلزل اصولوں اور علاقائی امن و استحکام کے حوالے سے مشترکہ نقطہ نظر کو پوری قوت سے اجاگر کردیا۔ اس پریس کانفرنس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ دونوں ملک لبنان، شام ، عراق یا خطے میں ایران کی منفی سرگرمیوں سے نمٹنے پر متفق ہیں۔ دونوں ملک ایران کے ایٹمی معاہدے پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں۔ یہ معاہدہ مختلف حوالوں سے خطے کے امن کیلئے خطرہ بن چکا ہے۔ جب تک اس معاہدے میں یہ بندش شامل نہیں ہوگی کہ ایرانی نظام امن و استحکام کے حساب پر توسیع پسندانہ ا ہداف اور سرگرمیوں سے باز رہے تب تک بات نہیں بنے گی۔ یہ بات ناقابل فہم ہے کہ واجب النفاد معاہدوں کے ذریعے ایران کو لگام نہ لگائی جائے۔ یہ ضرورت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ایران کو اس امر کا پابند بنانا ہوگا کہ اگر اس نے علاقائی اور بین الاقوامی امن و امان کو نقصان پہنچانے والے کام کئے تو اسے موثر سزا ملے گی۔ امریکہ ایران کے ایٹمی معاہدے پر نظر ثانی عالمی امن و سلامتی کے تحفظ کی خاطر ہی کررہا ہے۔