تاج محل کی ملکیت کا تنازعہ
جو شے جتنی حسین اور خوبصورت ہوتی ہے،اس کے چاہنے والوں اور اس سے حسد کرنے والوں کی تعداد بھی اتنی ہی ہوتی ہے
معصوم مراد آبادی
اپنے حسن،زیبائش اور بے پناہ خوبصورتی کے حوالے سے پوری دنیا میں شہرت پانے والی دل فریب عمارت تاج محل کے تعلق سے آئے دن نت نئے تنازعات جنم لیتے رہتے ہیں ۔ان میں کچھ تنازعات تو تاج محل سے بغض وعناد رکھنے والے عناصر پیدا کرتے ہیں اور کچھ تنازعات اس سے محبت رکھنے والے ۔ دونوں کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے اور وہ ہے تاج محل کے حوالے سے کسی نئے تنازعے کو چھیڑکر اپنی شہرت میں اضافہ کرنا ۔سنا ہے جو شے جتنی حسین اور خوبصورت ہوتی ہے،اس کے چاہنے والوں اور اس سے حسد کرنے والوں کی تعداد بھی اتنی ہی ہوتی ہے ۔یہی معاملہ تاج محل کا بھی ہے ۔ابھی تک کچھ لوگ تاج محل کو غلامی کی نشانی قرار دے کر نام کمایا کرتے تھے اور اب کچھ لوگوں نے خود کو اس کا مالک قرار دینے کی ناکام کوششیں شروع کردی ہیں حالانکہ ایسا کرنے والوں کو عدالت سے منہ کی کھانی پڑی ہے لیکن وہ اب بھی اپنی حرکتوں سے باز نہیں آرہے ۔
تاج محل کی ملکیت کا تنازعہ ملک کی سب سے بڑی عدالت تک آپہنچا ہے جہاں اس معاملے کی اگلی سماعت کی تاریخ 27جولائی مقرر کی گئی ہے ۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ تاج محل کی ملکیت کے سوال پر سنی وقف بورڈ اور محکمہ آثارقدیمہ کے درمیان بھی تنازعہ چل رہا ہے ۔ وقف بورڈ نے جولائی 2005میںمحکمہ آثارقدیمہ سے تاج محل کو اپنی ملکیت کے طور پر رجسٹرکرنے کو کہا تھا ۔محکمہ آثارقدیمہ نے اس کے خلاف 2010میں سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی ۔اس اپیل کی سماعت کے بعد عدالت نے بورڈ کے فیصلے پر حکم امتناعی جاری کردیا تھا ۔
ہم آپ کو یاد دلادیں کہ سب سے پہلے 1998میں فیروز آباد کے ایک باشندے عرفان بیدار نے الٰہ آباد ہائی کورٹ میں عرضی داخل کرکے تاج محل کو اترپردیش سنی وقف بورڈ کی جائیداد قرار دینے کا مطالبہ کیا تھا لیکن ہائی کورٹ نے انہیں وقف بورڈ کے پاس جانے کیلئے کہا۔ بعد ازاںعرفان بیدار نے وقف بورڈ میں عرضی داخل کرکے تاج محل کو بورڈ کی جائیداد قرار دینے کا مطالبہ کیا ۔بورڈ نے اس سلسلے میں محکمہ آثارقدیمہ کو نوٹس جاری کرکے جواب دینے کیلئے کہا ۔محکمہ آثار قدیمہ نے اپنے جواب میں اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ تاج محل اس کی اپنی جائیداد ہے اور وہ اس سے کبھی دستبردار نہیں ہوسکتالیکن بورڈ نے محکمہ آثار قدیمہ کے دلائل کو مسترد کرتے ہوئے تاج محل کواپنی ملکیت قراردے دیا اور اس سلسلے میں اپنے پاس دستاویزی ثبوت ہونے کا بھی دعویٰ کیا لیکن عدالت میں سماعت کے دوران وہ اپنے دعوے کو ثابت کرنے میں ناکام رہا ۔عدالت کے سخت موقف کے پیش نظر وقف بورڈ اپنا موقف نرم کرنے پر مجبور ہوا ہے اور اس نے کہا کہ تاج محل کا اصلی مالک خدا ہے ۔جب کوئی جائیداد وقف کردی جاتی ہے تو وہ خدا کی جائیداد بن جاتی ہے۔
وقف بورڈ نے چیف جسٹس دیپک مشرا کی صدارت والی بنچ کے سامنے کہا کہ تاج محل کو محکمہ آثارقدیمہ کی دیکھ ریکھ میں رکھنے میں اسے کوئی پریشانی نہیں لیکن نماز اور عرس جاری رکھنے کا بورڈ کا حق برقرار رہے ۔اس پر محکمہ آثارقدیمہ نے حکام سے ہدایت لینے کیلئے و قت مانگا۔وقف بورڈ کا یہ دعویٰ کہ تاج محل اس کی ملکیت ہے اور شاہ جہاں نے اسکے نام تولیت نامہ تحریر کیا تھا یوں بھی غلط ہے کہ 1666میں جب شاہ جہاں کا انتقال ہوا تو اس وقت وقف بورڈ کا دور دور تک وجود ہی نہیں تھا لیکن اس کے باوجود وقف بورڈ نے گزشتہ 10اپریل کو تاج محل پر اپنا مالکانہ حق جتاتے ہوئے سپریم کورٹ میں یہ دعویٰ کیا کہ اسکے پاس شاہ جہاں کا لکھا ہوا وقف نامہ موجود ہے ۔اس پر سپریم کورٹ نے ثبوت کے طور پر شاہ جہاں کے دستخط والے دستاویز دکھانے کو کہاتو وقف بورڈ ایسا کرنے میں ناکام رہا ۔
محکمہ آثارقدیمہ کی طرف سے عدالت میں پیروی کررہے وکیل ڈی این رائو نے کہا کہ وقف بورڈ جیسا دعویٰ کررہا ہے ویسا کوئی وقف نامہ موجود نہیں ۔1858کے اعلامیہ کے مطابق انگریزوں کی طرف سے آخری مغل فرماں روابہادر شاہ ظفر سے لی گئی جائیدادوں کی ملکیت ملکہ برطانیہ کے پاس چلی گئی تھی ۔وہیں 1948کے قانون کے مطابق یہ عمارتیں اب حکومت ہند کی ملکیت ہیں جبکہ بورڈ کی پیروی کررہے سینیئر ایڈوکیٹ وی وی گری نے کہا کہ بورڈ کے حق میں شاہ جہا ں نے ہی تاج محل کا وقف نامہ تیار کروایا تھا ۔اس پر سپریم کورٹ کی بنچ نے فوراً کہا کہ آپ ہمیں شاہ جہاں کے دستخط والے دستاویز دکھائیں ۔وکیل کی گزارش پر عدالت نے ایک ہفتے کی مہلت دے دی لیکن ایک ہفتے بعد بھی وقف بورڈ اپنے دعوے کے حق میں ثبوت پیش نہیں کرسکا ۔اس دوران چیف جسٹس نے ان سے کچھ سوال بھی کئے ۔انہوںنے کہا کہ شاہ جہاں نے وقف نامہ پر دستخط کیسے کئے وہ تو جیل میں قید تھے اور وہیں سے تاج محل کا دیدار کیا کرتے تھے
واضح رہے کہ ولی عہد کی لڑائی کے سبب شاہ جہاں کے بیٹے اونگ زیب نے انہیں جولائی 1658میں آگرہ کے قلعہ میں نظر بند کیا تھا اور وہیں سے ایک سوراخ کی مدد سے وہ تاج محل کا دیدار کیا کرتے تھے ۔اپنی بیگم ممتاز محل کی یاد میں تاج محل تعمیر کرانے کے تقریباً18سال بعد 1666میں شاہ جہاں کی موت آگرہ کے قلعہ میں حراست کے دوران ہوئی تھی ۔عدالت نے کہا کہ مغل دور کا خاتمہ ہونے کے ساتھ ہی تاج محل سمیت دیگر تاریخی عمارتیں انگریزوں کو منتقل ہوگئی تھیں۔آزادی کے بعد سے یہ یادگاریں حکومت کی تحویل میں ہیں اور محکمہ آثارقدیمہ ان کی دیکھ بھال کررہا ہے ۔چیف جسٹس دیپک مشرا کی سربراہی والی بنچ نے کہا کہ ’’ہندوستان میں کون یقین کرے گا کہ تاج محل وقف بورڈ کا ہے ۔ایسے مسئلوں پر سپریم کورٹ کا وقت برباد نہیں کرنا چاہئے۔‘‘