Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گرہستی ایسی ، مہمان گھر میں داخل ہوتے ہی معترف ہوجائے

عنبرین فیض احمد۔ ینبع
ماما دیکھیں کون آیا ہے۔ شازیہ آنٹی آئی ہیں۔ آپ کا پوچھ رہی ہیں۔ اچھا ان کو بٹھاﺅ میں ابھی آتی ہوں۔ فضا کی بات پوری بھی نہیں ہوئی تھی کہ شازیہ بیڈروم میں ہی پہنچ گئی۔ ارے رئیسہ تم نے سنا مجھے تو ہول آ رہا تھا کہ کسی طرح یہ بات تمہیں گوش گزار کرا دوں تاکہ تم بروقت مقابلے کیلئے تیار ہوجاﺅ۔ ارے آپا سلام نہ دعا ، یوں ہوا کے گھوڑے پر سوار آئی ہیں آپ۔ رئیسہ نے دہل کر پوچھا کہ بات کیا ہے ،کوئی پریشانی ہے کیا ؟ بس کیا بتاﺅ ں میں آج عالیہ کی طرف سے گزر رہی تھی تو اس کے گھر چلی گئی ۔ کون عالیہ؟ ارے تمہاری دیورانی عالیہ اور کون، اس کے گھر کا نقشہ ہی کچھ بدلا بدلا سا تھا۔ باہر خوب اچھا رنگ روغن ہوا دیکھا تو مجھے بڑا تجسس ہواچنانچہ گھر میں چلی گئی۔ وہاں کی تو دنیا ہی بدلی ہوئی تھی۔ ہر کمرہ نئے نئے فرنیچر سے آراستہ تھا۔ نئے پردے، یوں سمجھو کہ وہ پہلے والا گھربالکل نہیں لگ رہا تھا۔ سب سے اہم بات جو میںبتانے والی ہوں وہ یہ ہے کہ اس گھر کے پچھواڑے میں دو صحت مند اور تندرست بکرے بندھے ہوئے تھے جن کو دیکھ کر بندہ دو گھڑی کو دیکھتا ہی رہ جائے۔ شازیہ نے بکرے کی خوبصورتی کا نقشہ کچھ اس طرح کھینچا کہ جیسے کسی بکرے کی نہیں بلکہ حسینہ¿ عالم کی بات ہورہی ہو۔ 
رئیسہ! سنا ہے کہ خاندان میں ہر ایک عالیہ کی تعریفوں کے پل باندھ رہا ہے ۔ہر کسی کی زبان پر عالیہ کا ہی نام ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ سب رشتہ داروں کی شاندار دعوت بھی ہونے والی ہے جس میں باربی کیو بھی ہوگا۔ ارے آپا آپ نے صرف دو بکرے بندھے دیکھ لئے، آپ نے تو دعوتیں بھی خود سے فرض کرلیں ۔رئیسہ کا ضبط جواب دے گیا ۔ ارے نہیں یقین جانو دعوت تو پکی ہے میں نے تو یہ بھی معلوم کرلیا کہ دعوت میں مینیو کیا ہے۔ سنا ہے کہ سب کے نئے جوڑے بھی تیار ہورہے ہیں۔ خوب اچھا گھر، شاندار دعوت اور سب سے بڑی بات یہ کہ ہر سو عالیہ کے چرچے ۔ 
یہ سوچ کر تو رئیسہ بیگم تڑپ ہی گئیں۔ انہیں عالیہ کی تعریف کہاں برداشت تھی اگر کوئی تعریف کرے تو صرف رئیسہ بیگم کی کرے۔ اسے نیچا دکھانے کے چکر میں خود رئیسہ بیگم قرض کی دلدل میں دھنستی چلی گئیں مگر پھر بھی ہوش نہ آیا۔ رئیسہ پر تو جیسے غشی طاری ہوگئی تھی۔ 
ارے بیٹا ،امی کیلئے جوس کا گلاس تو لے کر آﺅ، تمہاری امی تو ایسا معلوم ہورہا ہے کہ بے ہوش ہوگئی ہیں اور سنو! میرے لئے بھی جوس لانا نہیں بھولنا۔ باہر بڑی سخت گرمی ہے۔ رئیسہ کی بیٹی بے قراری سے اپنی ماں کو آوازیں دے رہی تھی لیکن وہ کہاں سن رہی تھیں۔ انہیں تو ہر سمت صرف عالیہ کی ہی تعریفیں سنائی دے رہی تھیں۔ دل تھا کہ اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبا چلا جارہا تھا۔ شازیہ نے یہ بھی بے چین ہوکر آوازیں دینا شروع کردیں ۔رئیسہ ہوش کرو ، لمحہ بھر کیلئے تو شازیہ بھی گھبرا گئی۔ آپا اب کیا ہوگا، ارے رئیسہ تمہارے گھر میں دو چھوڑ چار بکروں کی دعوت ہو گی، تم دیکھنا تو سہی ،عالیہ کے گھر سے زیادہ شاندار دعوت ۔ مگر کیسے آپا؟ تم فکر مت کرو ۔ تم کیوں پریشان ہوتی ہو، میرے ہوتے ہوئے کیسی پریشانی۔ وہ شازیہ ہی کیا جس کے پاس کسی پریشانی یا کسی مسئلے کا حل موجود نہ ہویا پھر کسی مشکل کا توڑ نہ ہو۔ وہ کسی اشتہاری پروفیسروںکے انداز میں دعویٰ کررہی تھی۔
ارے اب دیکھنا کیسے تمہاری سلیقہ مند ی کے ڈنکے پٹواتی ہوں۔ عالیہ تو تمہارا منہ ہی تکتی رہ جائے گی اور ہر طرف تمہاری ہی تعریفیں ہونگیں ۔ ہر ایک کی زبان پر تمہارا ہی نام ہوگا۔ ارے رئیسہ اب تسلی رکھو، اب تمہاری ہی واہ واہ ہوگی ہر جگہ۔ شازیہ نے اپنی وفاداری کا بھرپور یقین دلایا اور اس یقین دہانی سے رئیسہ کا گہرائیوں میں ڈوبتا دل دیوانہ وار رقص کرنے لگا ۔ مسکراہٹ لبوں پر آن پہنچی۔ ہاں تو آپا آپ بتا رہی تھیں کہ یہ سب ہوجائے گا مگر کیسے ؟ یہ سب کیسے ممکن ہے ؟میرے پاس تو اتنے پیسے بھی نہیں اور نہ ہی میرے شوہر کی اتنی آمدنی ہے کہ میں اپنی فرمائشیں پوری کراسکوں۔ ارے میری بہنا ذرا چھری تلے دم تو لے لو پھر سوچتے ہیں کیا کرنا چاہئے۔
ارے ہاں! تم نے مجھ سے کہا تھا کہ تمہاری کمیٹی نکلنے والی ہے۔ اس سے اپنے گھر کی سجاوٹ اور تزئین و آرائش کا کام شروع کراﺅ۔ باقی ضروری کاموں کو بعد میں دیکھا جائے گا۔ رئیسہ ہر کام اپنی شہرت اور دوسروں کی دیکھا دیکھی کرنے کی بڑ ی شوقین تھی۔ جیسا دوسروں نے کیا، اس سے بڑھ کر بلکہ بہترین کرناہی ان کی زندگی کا اصول تھا۔ اس کیلئے وہ لوگوں سے قرض لیتیں مگر واپس کرنے کی نوبت نہ آپاتی۔ جب لوگ اپنی رقم کا تقاضا کرتے تو آج اور کل کا کہہ کر ٹال مٹول کرجاتیں۔ جب یہ بات رئیسہ بیگم کے میاں کے کانوں تک پہنچی کہ ان کی بیگم مقابلے کی دوڑ میں مقروض ہوچکی ہیں تووہ بہت ناراض ہوئے۔انہوں نے کہا کہ جو چاہیں سمجھ لیں ، میںہر بار خاموش ہوجاتا تھا مگر اب خاموش نہیں رہ سکتا۔ اگر عالیہ کا مقابلہ کرنا ہے تو ہرکام کرنے میں پہل کیا کریں۔ اس طرح مقابلے میں رشتوں کا لحاظ ختم ہوجاتا ہے اور جب لحاظ ختم ہوجاتا ہے تو محبت بھی دم توڑ دیتی ہے۔ ایک عالیہ ہی کیا، محلے میںہر ایک سے آپ کا مقابلہ ہے۔ میںاس بے جا مقابلے کی دوڑ میں آپ کا ساتھ نہیں دے سکتا۔ آج سے مقابلہ بازی کا کھیل ختم ہونا چاہئے۔ مقابلہ اچھی چیز ہے مگر یہ اچھی چیزوں میں ہی کیا جائے تو کیا ہی اچھا ہو مثلاً کسی کا اخلاق دیکھ کر اس جیسا اخلاق اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کی جائے یا پھر کسی کی مدد کرنے کا جذبہ خوداپنے اندر ابھارنے کی کوشش کی جائے۔ تعلیم کے میدان میں کامیابی حاصل کی جائے، بہت ساری چیزیں ہیں مقابلہ کرنے کیلئے۔ جس سے انسان کے اندر عقل و شعور پیدا ہوتا ہے۔
اگر عالیہ کا مقابلہ کرنا ہی ہے تو اس کی سمجھ داری سے کریں کہ کیسے اس نے اپنی سلیقہ مندی اور کفایت شعاری سے گھر کو خوبصورتی سے سجا کر رکھا ہے۔ کوئی بھی مہمان گھر میں داخل ہوتے ہی گرہستن کی گرہستی کا معترف ہو جاتا ہے ۔اس کے بچے بھی کتنے ذہین ہیں۔ پورے خاندان میں بچوں کی ذہانت اور اچھی تربیت کی دھوم مچی ہوئی ہے۔ یہی تو المیہ ہے معاشرے کا کہ مائیں مقابلے کی دوڑ میںمشغول رہتی ہیں ، انہیں اپنی خبر نہیںہوتی ۔وہ بس اپنی ناک اونچی رکھنا چاہتی ہیں۔ اس کا انجام یہ ہے کہ آج کی ماﺅں کوبھی خبر نہیں کہ ان کی اولاد کی مصروفیات کیا ہیں۔ ان کے دوست ، احباب کیسے ہیں ۔ ہوا کارخ کدھر ہے۔ آج گھروں میں بے سکونی و بے چینی کیوں ہے؟ ہم سب افراتفری کے عالم میں زندگی بسر کررہے ہیں کیونکہ ہم نے اپنے دل و دماغ کی آنکھیں بند کررکھی ہیںاور ان فضول قسم کے کاموںمیں مصروف ہوگئے ہیں۔ اگر یہی وقت ہم دوسروںسے مقابلے بازی کی بجائے اپنے بچوں اور گھر کی بہتری پر صرف کریں تو ہمارے ملک میں شرح خواندگی بھی بڑھ جائے گی اور ہر بچے کو کوئی نہ کوئی ہنر بھی آہی جائے گا۔
سچ ہے کہ خلوص نیت سے کیاجانے والا کام ہمیشہ انسان کو عزت و احترام دلاتا ہے اور جس کام کے کرنے میں کھوٹ شامل ہو اس میں انسان ہمیشہ ذلیل و خوار ہی ہوتا ہے اور خالی ہاتھ ہی رہتا ہے۔ہمیں چاہئے کہ ہم جو کام بھی کریں، خلوص نیت اور نیک نیتی سے کریں، اس میںبرکت بھی ہوگی۔
 

شیئر: