Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

یہ ہے غزل

بزم مہوشاں میں کسی مہ رُخ نے سوال داغا کہ غزل کیا ہے،بزم کی اولیں رو سے ایک مہ جبیں اپنا آنچل سنوارتے ہوئے کھڑی ہوئی اور کہنے لگی لب و رخسار کی حدت، چشمِ آہو کی رنگت،آواز کی کھنک اور گیسوﺅں کی مہک کو لفظوں میں ڈھالنے کا نام غزل ہے، بزم کی ایک جانب سے ایک اور نسوانی صدابلند ہوئی جس نے کہا کہ زندگی کے نشیب و فراز ، ٹوٹے ہوئے تاروں کے ساز اور دنیا کے بے اعتنائی کے انداز کو رقم کرنے کا نام غزل ہے، اسی اثنا میں بزم کے ایک اور کونے سے آواز ابھری کہ پرخار راستوں پر چلنے، پچھتاکر ہاتھ ملنے، سینے میں ارمانوں کے پلنے، کسی کی یادوں میں جلنے اور گرگر کر سنبھلنے کا نام غزل ہے، اسی آن بزم کے آخری گوشے سے اک جہاں دیدہ صدافضا میں یوں مترشح ہوئی کہ غم سے نڈھال ہوکر لبوں پر آنے والی آہ، درد کے باعث ابھرنے وا لی کراہ، جبر و استبداد سے نباہ، کسی نا پسندیدہ پناہ، کسی بے منزل راہ، کسی موہوم وجود کی چاہ کو الفاظ میں سمو کر بے توقیر کرنے کا نام غزل ہے۔
یہی سوال شمع کے پروانوں سے، ریختہ کے دیوانوں سے ، دور حاضر کے نوجوانوں سے کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ تصویر کائنات کے رنگوں کے سحر کو لفظوں میں ڈھالنے کی منظوم کوشش غزل کہلاتی ہے۔"غزل "کا لفظ سنتے ہی کانوں میں ایک پرکیف اور مدھر صدا کسمسانے لگتی ہے ۔غزل جو محبوب سے گفتگو کاپرتو ہے توتنہائیوں ، اداسیوں اور بے چینیوں کی ترجمانی بھی ہے ۔ غزل اگر حالات حاضرہ کی عکاسی کرتی ہے تو یہ انقلاب کا وہ ہتھیاربھی ہے جس کی گرج سے تخت و تاج دہل جا تے ہیں۔ غزل اگر دو دلوںکے ایک دوسرے سے ہم کلام ہونے کا نام ہے ہے تو تھکے ماندے ذہنوں میں بیدار ہونے والی ترنگ کا نام بھی غزل ہے۔جب ان خوبیوں سے معمور غزل کو آواز مل جائے تو یہ سماعتوں پر یوں دستک دیتی ہے کہ سامع بے ساختہ پکار اٹھتاہے ”واہ ہ ہ “
 

شیئر: