کبھی کہا جاتا تھاکہ’’مسکرائیے ، آپ لکھنؤ میں ہیں ‘‘ ،آج بھی یہ تحریر کہیں کہیں نظرآتی ہے لیکن جو اسے پڑھتاہے اس کی زبان سے یہ جملہ بے ساختہ نکل جاتاہے کہ’’ آنسوبہائیے، آپ لکھنؤ میں ہیں
* * * *
ظفر قطب ۔ لکھنؤ
لکھنؤبلدیہ کا بہت پرانا نعرہ جو یہاں کے ریلوے اسٹیشنوں، بس اڈوں اور ایئرپورٹ پر جلی حروف میں لکھا ہوا نظر آتا تھاکہ’’مسکرائیے ، آپ لکھنؤ میں ہیں ‘‘ ،آج بھی یہ تحریر کہیں کہیں نظرآتی ہے لیکن ہر شخص جو اسے پڑھ لیتاہے اس کی زبان سے یہ جملہ بے ساختہ نکل جاتاہے ’’ آنسوبہائیے، آپ لکھنؤ میں ہیں ۔
بی جے پی حکومت نے اقتدار میں آنے سے قبل یہ اعلان کیا تھا کہ وہ اس شہر کو اسمارٹ سٹی بنادے گی۔ وزیراعظم مودی نے بھی اسمبلی الیکشن کے موقع پر کچھ ایسا ہی کہا تھا لیکن مرکزی وزیرنقل وحمل اور سڑک نتن گڈکری نے تو سب سے چارقدم آگے بڑھ کر اعلان کردیا تھا کہ لکھنؤ کی سڑکوں کو وہ پیرس اور امریکہ کی سڑکوں کے مساوی کردیں گے لیکن ہوا کیا ؟آج اس کی تصویر مقامی اور باہر سے آنے والوں کے سامنے ہے۔ وہ سب ریاستی راجدھانی لکھنؤ اورماضی کے نوابین اودھ کے شہر نگاراں کی حالت زار پر آنسو بہانے پرمجبور ہیں ۔صفائی کا حال یہ ہے کہ شہر کے قدیم حصوں کا ذکر تو دور کی بات ،جدیدکالونیوں میں اب دوروز بعد جھاڑو لگانے والاعملہ نظرآتاہے ۔ایک طرف صفائی پروزیراعظم بہت زور دے رہے ہیں اور دوسری جانب ہر طرف ریاستی حکومت کی سست روی کی وجہ سے گندگی اور کوڑے کے انبار نظر آتے ہیں ۔
ہندوستان میں ریزروبینک کے بڑے نوٹوں پر صفائی کی علامت گاندھی جی کاچشمہ نظرآتاتھا، وہ بھی آج کل نوٹ غائب ہوجانے کے باعث معدوم ہوگیا ہے ۔اس شہر کی زمرہ بندی بی جے پی حکومت نے کرائی تواسے شرمندگی اٹھانی پڑی کہ صرف بلدیاتی اداروں میں ہی صفائی کا فقدان نظرنہیں آیابلکہ بلدیہ کی حدود میں بھی یہ کام تسلی بخش نہیں۔ جہاں تک سوال ہے شہرکے مضافات میں واقع ضلع پنچایتوں کا، تو ان کی حالت بے حدخراب ہے۔ شاید اسی لئے ضلع مجسٹریٹ لکھنؤ کو اپنی سالانہ رپورٹ میں ماہ مارچ کے آخر میں پیش کرتے ہوئے ان کمزوریوں کو نمایاں کرنا پڑا۔ اس کے بعد کمشنر نے ہدایت دی ہے کہ ضلع پنچایتوں کا بھی احاطہ کرکے لکھنؤ کواسمارٹ سٹی بنانے کے اقدام کئے جائیں اور اس کی جائزہ رپورٹ پیش کی جائے ۔شہرمیں پنچایتوں کو شامل نہ کئے جانے کی وجہ سے ضلع میں ہونے والے کاموں کی حقیقت پر صحیح روشنی نہیں پڑتی ۔رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کوڑا ٹھکانے لگانے کے علاوہ دیگر کاموں میں بھی بہتری لائی جائے تاکہ جب شہروں کی زمرہ بندی ہوتو اس میں لکھنؤکو نمایاں مقام حاصل ہوسکے۔ اس کے علاوہ کم سے کم اترپردیش میں تو اسے اول مقام ملنا ہی چاہئے۔اس کیلئے ضروری ہے کہ ترقیاتی کاموں کی نگرانی میں اضافہ کیا جائے۔
جہاں تک سوال لکھنؤ کو اسمارٹ بناے کا ہے تو سب سے پہلے کسی چہار دیواری کے بغیر بے سائبان مقام پر ’’استفراغ‘‘کے حوالے سے غور کرنا انتہائی اہم ہے جس میں لاکھ کوششوں کے باوجود معمولی سافرق پڑاہے۔ مرکزی وریاستی حکومتوں نے اس پر اربوں روپے خرچ کردیئے لیکن شہریوں کی سوچ میں تبدیلی لانے پر کوئی کام نہیں ہوسکا۔آج بھی دور درازعلاقوں سے شہر میں محنت مزدوری کرنے والے ریلوے لائنوں کے کناروں اور نالوں کے آس پاس قضائے حاجت کرتے نظرآتے ہیں۔ اس وقت شہر نگاراں میں 60فیصد آبادی باہر سے آنے والے دیہی عوام پر مشتمل ہے۔ ان میں نصف تعداد ایسے لوگوںکی ہے جو ضروری حاجت کیلئے جہاںموقع مل جائے، بیٹھ جاتے ہیں۔ ابھی تک ان کی ذہنیت نہیں بدلی ۔ضرورت اس با ت کی ہے کہ ان کے اذہان میں یہ سوچ بیدار کی جائے کہ اس طرح استفراغ کا اندازغیر مہذبانہ ہے ۔
اسی طرح کوڑا وگندگی پھیلانے کے سلسلے میں بھی لوگوں میں ذرا بھی احساس نہیں۔ انہیں اس بات کاعلم نہیں کہ چاٹ کے پتل، عارضی استعمال میں آنے والی کاغذوپلاسٹک کی تھیلیاں، تھالیاں نیز دیگر اشیاء کھلے عام سڑکوں اور پارکوں میں پھینکنے کے بجائے کوڑے دانوں کا استعمال کرنا چاہئے ۔ اگر سڑکوں کی طرف دیکھیں تو ان کی حالت بھی بدتر ہے لکھنؤ کی سڑکیں آج گڑھوں میں تندیل ہو چکی ہیں۔ گزشتہ برس وزیراعلیٰ یوگی نے اعلان کیاتھاکہ جون 2017تک نہ صرف لکھنؤ بلکہ پوری ریاست کی سڑکیں گڑھوں سے آزاد ہوجائیں گی لیکن سال ہونے کو آگیا، یوپی کا حال چھوڑئیے،ریاستی راجدھانی لکھنؤ کی سڑکوں سے گڑھے دور نہیں ہوسکے۔ڈپٹی وزیراعلیٰ موریہ نے جاری برس کے شروع میں دعویٰ کیا تھا کہ نصف کام ہوچکاہے بس مارچ2018ء تک یہ کام مکمل ہوجائے گا لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ آج بھی شہر کی سب سے طویل سڑک جوراجاجی پورم چوپٹیاں اکبری گیٹ ،مولوی گنج قیصر باغ ہوکر تیلی باغ تک جاتی ہے، اس کی حالت سب سے زیادہ خراب ہے ۔مسلم محلوں کی سڑکوں کے بارے میں تو کچھ کہناہی بیکارہے۔رنگ روڈ سے خرم نگر اسٹریٹ پر 6 ماہ سے نالے کی تعمیر کا کام ہو رہا ہے۔ اس نالے کی تعمیر کے نام پر جگہ جگہ سڑک کھودی گئی ہے۔اس مقام پر کافی گہرے گڑھے نہ صرف خطرناک ہیں بلکہ آمد و رفت کا نظام مکمل طور پر برباد ہوچکا ہے۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ یہاںکھودے گئے گڑھوں کے کنارے نہ تو کوئی رکاوٹ کھڑی کی گئی ہے اور نہ ہی اڑنے والی دھول پر قابا پانے کی کوئی کوشش کی گئی ہے۔ یہاں سے شہریوں کاگزرنا دشوار ہے۔ دھول مٹی کے باعث لوگ یہاں سے منہ پر رومال باندھ کر یا ناک پر ہاتھ رکھ کر گزرتے ہیں ۔عوام برہم ہیں کہ انہیں گڑھوں سے بچانے کیلئے کچھ نہیں کیا گیا جن سے ہمیشہ کسی انہونی کا خطرہ بنا رہتا ہے اور وہاں دن بھر ٹریفک بھی جام رہتا ہے۔
رہی بات اسٹریٹ لائٹس کی توآج بھی قدیم شہر میں اندھیرا رہتا ہے۔ کتنے علاقوں میں جہاں روشنی ہوتی ہے، وہاں اسٹریٹ لائٹس جلتی نظر آتی ہیں۔ یہ شکایت سماجوادی حکومت میں بھی تھی اور آج بی جے پی حکومت میں بھی برقرار ہے۔ اسٹریٹ لائٹس میں کفایت برتنے کی غرض سے ایل ای ڈی لگانے کی تجویز منظور ہوئی تھی۔ اب جو تازہ رپورٹ اس سلسلے میں آئی ہے۔ اس کے مطابق اس میدان میں کام ابھی صرف 43.83 فیصد تک ہی ہوپایا ہے۔ پینے کے پانی کے سلسلے میں صرف 11.57فیصد ہی پیش رفت ہو پائی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اسمارٹ سٹی صرف بیان دے دینے سے نہیں بن جاتا اس کے لئے عمل درکار ہوتا ہے۔گزشتہ دنوں شہر کی پوش کالونی اندرا نگر میں کئی گھنٹے بجلی اس لئے نہیں آئی کیونکہ وہاں سے گزرنے والی ہائی ٹینش لائن بغیر کسی اعلان اور تخمینے کے جونیئرانجینیئروں اور مزدوروں نے مل کر تبدیل کردی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہزاروں عوام کو بجلی اور پانی کیلئے اس سخت گرمی کے موسم میں کئی گھنٹے ترسنا پڑا۔ اس سلسلے میں جب عوام نے برہمی کا اظہارکیا تو ایگزیکٹیوانجینیئر انکت ورما نے حیرانی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ سب کیسے ہوا؟ میں دیکھتا ہوں۔ اس کے بعد پتہ چلا کہ لائن میں جونیئر انجینیئر اور مزدوروں نے خاموشی کے ساتھ یہ کام کر ڈالا۔ اس کی اطلاع شہریوں کو نہیں دی گئی تھی۔
سب سے برا حال شہر میں ناجائز قبضوں کا ہے ۔ہر برس بلدیہ اعلان کرتی ہے کہ ناجائزقبضوں کے خلاف مہم چلاکر اسے ختم کر دیاجائے گانیزخطاکاروں کے خلاف سخت کارروائی ہوگی لیکن ہوتاکچھ نہیں البتہ ناجائز قبضے اور بڑھ جاتے ہیں ۔پولیس میں ان کے خلاف رپورٹ بھی لکھائی جاتی ہے لیکن آج تک کسی ناجائز قبضہ کرنے والے کو نہ تو جیل جاتے دیکھایاسنا گیا اورنہ ہی اسے جرمانہ بھرتے دیکھا گیا۔ ہاں بلدیہ نے حکومت کے اس اشارے پر تیز کام کیا کہ دریائے گومتی کے کنارے واقع دھرنے ومظاہرے کے میدان کو خالی کراکے اسے شہر سے دور کانشی رام ایکوگارڈن منتقل کردیا چونکہ بی جے پی حکومت کی خواہش تھی کہ اس کی ناقص کارکردگی کے خلاف آواز اٹھانے والوں پر کسی کی نظرنہ پڑے اس لئے انہیں دور کردیا گیا ۔یہاں تیز دھوپ اور پتھروں کے درمیان مظاہرین کو سخت امتحان سے گزرنا پڑرہاہے ۔حکومت نے اس مقام پر ضروری اور بنیادی انسانی سہولتوںکا بھی بندوبست نہیں کیا ۔پرانی جیل کے پاس دھرنادینے ، مظاہرہ کرنے والے چیختے چلاتے رہیں، وہاں ان کی سننے والاکوئی نہیں۔پینے کے پانی اور سائے کا کوئی بندوبست بھی نہیں ۔حق کی آواز اٹھانے والوں کو اب یہاں تپنا پڑتاہے ۔ان سب کے باوجود اعلیٰ افسران کادعویٰ ہے کہ لکھنؤ کو اسمارٹ سٹی بنانے کی جانب ہم گامزن ہیں جہاں تک سوال لااینڈ آرڈر کا ہے تو یہ کام پولیس کا ہے۔ اسے علم ہونا چاہئے کہ شہر میں کون محفوظ ہے اور کون خطرے میں ہے ۔ہمارا کام عوام کو بنیادی سہولتیں مہیا کرناجس میں ہم ایک دن ضرور کامیاب ہوجائیں گے۔
مزید پڑھیں:- - - - -جناح کی تصویر پر ہنگامہ