Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب دوسرے نمبر پر

عبداللہ المزھر ۔ مکہ
            جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ” سب سے پہلے سعودی عرب ہو“، اس کا تذکرہ سابقہ کالم میں کیا جاچکا ہے۔ ویسے بھی سعودی عرب سب سے پہلے والا اصول اجاگر کرنے کیلئے یا وقتاًفوقتاً اسکی بابت کچھ سننے کی چنداں ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ اصل مسئلہ ان لوگوں کا کہناہے جنہیں کچھ کرنے کا موقع نہ مل رہا ہو۔ بیشتر بے روزگار جانتے ہیں اور یہ عقیدہ بھی رکھتے ہیں کہ سعودی عرب انکے لئے سب سے پہلی ترجیح ہے۔اول بھی سعودی عرب ہے اور آخر بھی سعودی عرب ۔ مسئلہ یہ ہے کہ بہت ساری قومی کمپنیاں ان جیسے سعودی نوجوانوں والا عقیدہ رکھتی ہیں اور نہ ہی جذبہ۔
            یہ معاملہ اُس مریض جیسا ہے جس کو یقین ہو گیا ہو کہ اسکی حیثیت گندم کے دانے جیسی ہے اور مرغی اسے کھانے کیلئے اسکے تعاقب میں لگی ہوئی ہے۔ ڈاکٹر اسے پھر یہ سمجھانے میں کامیاب ہوگیا کہ وہ ایک انسان ہے اور اسکے ذہن میں یہ بات جو گھس گئی ہے کہ وہ گندم کا دانہ ہے یہ اسکا وہم ہے تاہم مریض نے کلینک سے نکلنے سے قبل ایک انتہائی اہم سوال ڈاکٹر سے یہ کہہ کر کیا کہ ڈاکٹر صاحب! یہ بات تو مجھے سمجھ میں آگئی کہ میں گندم کا دانہ نہیں ہوں مگر مرغی کو یہ بات کون سمجھائے؟
            ہمیں یقین ہے کہ سب سے پہلے سعودی عرب ہے لیکن بڑی کمپنیوں ا ور اداروں کو یہ بات کون سمجھائے کہ سب سے پہلے سعودی عرب ہے۔
            مسئلہ یہ ہے کہ لوگ دو انتہاﺅں کے درمیان زندگی گزار رہے ہیں۔ بعض لوگوں کو اس انداز سے دیکھا جاتا ہے کہ وہ نسلی تفریق کا عَلم بلند کئے ہوئے ہیں۔کئی لوگ اسکے ساتھ انتہائی پرجوش ہوجاتے ہیں اور وہ کسی بھی غیر ملکی کو کسی بھی جگہ دیکھنا پسند نہیں کرتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ دنیا کے تمام لوگ چورہیں ،یہاں چوری کی غرض سے آئے ہوئے ہیں۔ زیادہ واضح الفاظ میں یہ بات یوں کہی جاسکتی ہے کہ ” سعودی عرب سب سے پہلے ہے“۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ سعودی عرب کا مفاد سب سے اوپر ہے۔ کبھی مملکت کا مفاد اس بات میں ہوتا ہے کہ منفرد غیرملکی باصلاحیت اور تجربہ کار لوگ یہاں ہوں ۔ایک فرق یہ ہے کہ منفرد صلاحیتوں کے مالک تارکین کی خدمات کے حصول اور عام ملازمتوں کےلئے مطلوب افراد میں فرق کیا جانا ضروری ہے۔سعودی کمپنی میں فروغ افرادی قوت کا انچارج غیر ملکی ہو یہ بات بلاشبہ مضحکہ خیز ہے۔ میں نے اپنے ایک بھائی کو ملازمت دلانے کیلئے کافی بھاگ دوڑ کی۔ غیر ملکیوں کو اس کا سی وی بھیجا۔ میرا بھائی بزنس مینجمنٹ کا ماہر ہے۔ اسے ملازمت دینے کیلئے کسی لمبے چوڑے سی وی کی بھی ضرورت نہیں تھی۔ کہنا صرف یہ ہے کہ میانہ روی اور اعتدال کا دائرہ دینی امور تک محدود نہیں۔ سعودی عرب کا پرچم بلند کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ دوسروں کیخلاف دشنام طرازی ہورہی ہو یا انہیںنظرانداز کیا جارہا ہو۔ سعودیوں کو ملازمت نہ ملنے کے ذمہ دار وہ سعودی ہیں جو اپنے وطن کو سب سے پہلے نہیں بلکہ سب سے آخر میں رکھے ہوئے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭

                               

شیئر: