18مئی 2018جمعہ کو سعودی عرب سے شائع ہونیوالے عربی اخبارالاقتصادیہ کا اداریہ نذر قارئین ہے۔
امریکہ کی پابندیوں سے ایران کو خود ایران کے سوا کوئی اور نہیں بچا سکتا۔ یورپی یونین میں شامل ممالک ہوں، روس یا چین، کوئی بھی ایران پر امریکی پابندیوں کی راہ میں حائل نہیں ہوسکتا۔ ایران کے دہشتگرد نظام کو یہ حقیقت اچھی طرح معلوم ہے تاہم وہ یورپی ممالک کے ساتھ خاص طور پر سلسلہ جنبانیوں اور صلاح و مشوروں کے ذریعے مہم جوئی کررہا ہے۔ ایران روس سے بھی رابطے میں ہے مگر ہر رابطے کا نتیجہ ایک ہے ۔ ایرانی نظام نے ابتک جن طاقتوں سے سہارا لینے کی کوشش کی ہے، وہ ایران کے مشکوک ایٹمی معاہدے سے علیحدگی کی بابت امریکی صدر کے فیصلے کو ملتوی کرانے میں کامیاب نہیں ہوسکیں۔ فرانس ، برطانیہ اور جرمنی نے یہ کوشش ایران کے ایٹمی معاہدے میں ترامیم تجویز کر کے کی تھی۔ ایرانی حکمراں ان دنوں کچھ ایسے فریقوں کا سہا را لے رہے ہیں جو غالباً خود اپنے فیصلوں کے مالک نہیں۔
ایرانی نظام کی کوششوں کا محور اس وقت یہ ہے کہ امریکہ اس پر خطرناک شکل میں پابندیاں نہ لگائے۔ یورپ کی کمپنیوں اور اداروں نے باقاعدہ طور پر ایران کو تحریری شکل میں اطلاع دیدی ہے کہ وہ ایران میں کسی بھی منصوبے پر کام کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہونگی۔ یورپی کمپنیاں و ادارے امریکی قوانین سے خوفزدہ ہیں جن کے بموجب کمپنی کی شہریت دیکھے بغیر اس کی سرگرمی کی بنیاد پر اس سے برتاؤ کیا جاتا ہے۔ فی الوقت یورپی کمپنیاں ماضی کے مقابلے میں کسی بھی وقت کے حوالے سے بہت زیادہ خوفزدہ ہیں۔
صورتحال بدل چکی ہے۔ نیا منظر نامہ یہ ہے کہ اگر کوئی نیا ایٹمی معاہدہ بھی طے پائیگا تو وہ یورپی ممالک کے افکار کا نتیجہ نہیں ہوگا بلکہ امریکہ کی شرائط پر ہوگا۔ یورپی ممالک نے ایک بار نہیں بلکہ ہزار بار یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ نہ صرف یہ کہ ناکارہ بوڑھے ہوگئے ہیں بلکہ عالمی سطح پر کوئی بھی اہم کام کرنے سے قاصر ہیں۔