Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کراچی ، عروس البلاد اور گاﺅں کے ڈھابے جیسا ریلوے اسٹیشن

عنبرین فیض احمد۔ ینبع
تمام دنیا میں ریل کو ، سیر و تفریح سفر اور سامان کی نقل و حمل کے لئے انتہائی سستا ، مفید اور آسان ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ ریل دنیا کے بیشتر ممالک میں حکومت کے لئے آمدنی کا اہم وسیلہ شمار کی جاتی ہے۔ اگر ہم دنیابھر کا جائزہ لیں تو ریل کے سفر کے حوالے سے جاپان ان ممالک میں سر فہرست ہے جہاں کے باسی سفر کے لئے سب سے زیادہ ریل کو ترجیح دیتے ہیںجبکہ دوسرے نمبر پر ہندوستان ہے۔ 
پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے مگر اس کے باوجود وطن عزیز میں سفر کے لئے ریل اب زیادہ موزوں سواری نہیں رہی کیونکہ یہ کچھ اچھی حالت میں نہیں ۔ کبھی پاکستان ریلوے کو ملکی ٹرانسپورٹ میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل تھی اور یہ محکمہ اپنے اندرنشیب و فراز لئے ٹریک پر چلے جا رہا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق اس ریل کے ذریعے سالانہ لاکھوں لوگ سفر کیا کرتے تھے صرف یہی نہیں بلکہ ان کے ساتھ مال برداری کے لئے بھی اس محکمے کی گراں قدر خدمات تھیں۔ اس محکمے میں ہزاروں لوگ کام کرتے تھے جن کی یہ کفالت کرتا تھا۔ کرپشن ، بدعنوانی اور لاپروائی نے اس ریلوے کو مردہ ہاتھی بنا کر رکھ دیا اور اسے تباہی و بربادی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ۔ یہ محکمہ ہمیں برطانوی راج سے ورثے میں ملا تھا۔ جب وطن عزیز وجود میں آیا تو پاکستان ریلوے اس زمانے میں نارتھ ویسٹرین ریلوے کہلایا کرتی تھی۔ اس کی ریلوے لائنوں کی لمبائی 8ہزار 122کلومیٹر تھی جبکہ آج ریلوے لائن کی طوالت 8ہزار 162کلو میٹر ہے۔ گویا 70برس گزرنے کے بعد ریلوے لائن میںصرف 40کلومیٹر کا اضافہ کیاگیا۔ یہی نہیں بلکہ کئی ریلوے روٹ خسارے کے باعث بند کرنے پڑے۔بہت سے مقامات پر چور پٹریاںہی اکھاڑ لئے گئے۔ 
اب اس ادارے کا عالم یہ ہے کہ 70فیصد ریلوے ٹریک 90فیصد ریلوے پل او ر85فیصد ریلوے انجن اپنی تکنیکی میعاد پوری کر چکے ہیں لیکن ان کا استعمال اس لئے ضروری ہے کیونکہ ریاست کے پاس تعمیر و مرمت کا بجٹ نہیں۔اس مد میں کم از کم 30سے 40ارب روپے کی ضرورت ہوگی جبکہ ریلوے کا سالانہ خسارہ 3ارب کے قریب ہے۔
ایک وقت تھا جب ریاست ٹرانسپورٹ کی مد میں جتنا بجٹ بناتی تھی اس کے لئے درکار آمدنی کا بڑا حصہ ریلوے سے حاصل ہوتا تھا لیکن مختلف حکومتوں نے ریلوے کے بجائے سڑکوں اور شاہراہوں پر اپنی توجہ دینی شروع کر دی تو ریلوے یتیم ہوگیا، اس کا کوئی پرسان حال نہ رہا۔اب ٹرانسپورٹ بجٹ کا کچھ حصہ اسے مل رہا ہے۔ آج کی ناکارہ ٹرینوں میںبھلا کون سفر کرے گا ۔اسی لئے 70فیصد ٹرانسپورٹیشن ریلوے ٹریک کی بجائے سڑکوں کے ذریعے ہو رہی ہے۔ ٹرینوں کی کمی ، ناقص سروس اور انتظامی کنفیوژن کے سبب مسافروں کی بڑی تعداد ٹرینوں کی بجائے روڈ ٹرانسپورٹ کو ترجیح دیتی ہے۔ دراصل یہ ادارہ رفتہ رفتہ بعض دیگر حکومتی اداروں کی طرح سیاست کی بھینٹ چڑھتا گیا۔ جب کسی ادارے میں گنجائش سے زیادہ افراد کی بھرتی کی جائے تو اس ادارے کا کیا حال ہوگا او رپھر بھرتی کرتے وقت جن کی کوئی اہلیت پرکھنے کا پیمانہ نہ ہو تو ہم سب جانتے ہیں کہ ایسے میں اس ادارے کا زوال لازمی ہوتا ہے،یہی حال ریلوے کا ہوا۔ 
کتنی عجب بات ہے کہ ہند اور پاکستان دونوں کو انگریزریلوے نظام دے کر چلے گئے مگر آج ہند وستانی ریلوے سالانہ ڈھائی ارب ڈالر سے زائد منافع کما رہا ہے جبکہ پاکستان کا ریلوے ادارہ سڑک پر آ چکا ہے۔ ہر ٹرین کا یہ عالم ہے کہ جب وہ چلتی تو اس کی ساری بوگیاں لرزنے لگتی ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کی آخری سانسیں لے رہی ہیں۔ ایسی نجکاری کا کیا کرنا جس سے کچھ فائدہ ہونے کے بجائے نقصان ہورہاہو۔ چند دہائیوں قبل تک لوگ ٹرینوںمیں یادگار سفر کیا کرتے تھے۔ اس وقت آرام دہ اور معیاری بوگیاں ہوا کرتی تھیں اور ہر بوگی میں مسافروں کے لئے ٹائلٹ بھی ہوا کرتا تھا جہاں مسافروں کوپانی بھی ملتا تھا اور ہاتھ منہ دھونے دھلانے کی سہولت بھی ہوتی تھی۔اکثر بوگیوں میں شاور بھی لگے ہوئے تھے اور ساتھ ہی عوام کی خدمت کے لئے باوردی خدمت گار بھی موجود ہوتے تھے۔ جب کسی کوکھانے پینے کی ضرورت پڑتی تووہ آرڈر دیتا اور باوردی خدمت گار لذیذ کھانوں سے لدی ٹرے لے کر حاضر ہو جایا کرتا تھا ۔صرف یہی نہیں بلکہ ہر کھانے کے وقت پر ہر قسم کے کھانے تیار ہوتے تھے مگر افسوس کہ پھر اس شاندار ادارے کا زوال شروع ہوگیا۔ بوگیوں کے ٹائلٹس سے شاورمعدوم اور پانی غائب ہونا شروع ہوگیااور پھر بتدریج ریلوے کی بدنصیبی کا وقت آن پہنچا اور پاکستان کی شاندار اور سدابہار ٹرینیں تباہی و بربادی کا شکار ہونا شروع ہوگئیں۔ اس وقت ٹرین وقت پر اسٹیشن سے روانہ ہوتی اور مقررہ وقت پر اپنی منزل پر پہنچ جایا کرتی تھی۔ اس طرح کی ٹرینوںپر سفر کرنا مسافروں کے لئے بے حد پر لطف ہوتا تھااور کم وقت میں وہ اپنی منزل پر پہنچ جایا کرتے تھے۔ خاص طور پرمتوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد اس قسم کے سفر کو ترجیح دیتے تھے۔ آج ٹرینوں کا سفر ڈراﺅنا خواب بن کر رہ گیا ہے ۔ ٹرینیں لیٹ ہوتی ہیں۔ یہاں تک کہ مختصر روٹ پر بھی 4، 4 اور 5 ، 5 گھنٹے ٹرینوں کی تاخیر ایک عام سی بات ہوگئی ہے۔ اب تو معاملات اس قدر بگڑ گئے کہ کوئی بھی شخص ٹرین سے سفر کرنا نہیں چاہتا۔ ٹرینوں کا وہ عالم ہو گیا ہے کہ بوگیوں کی نشستیں ٹوٹی پھوٹی ہوئی ہیں جس کے باعث ان پر لیٹنا تو کیا بیٹھنا بھی محال ہے۔ ماضی میں کوئی ٹرین ایک گھنٹہ بھی لیٹ ہو جاتی تو اس تاخیر کی تلافی کی کوشش کی جاتی تھی مگر اب کئی کئی گھنٹے لیٹ ٹرین اپنی منزل کو پہنچتی ہے مگرپرسان حال کوئی نہیں ۔ ٹرینوں کے انجن کا بھی وہی حال ہے ۔ وہ صحیح طور پر کام نہیں کر سکتے۔ ان میں جا بجا فنی خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔
سچ یہ ہے کہ جب تک ہمارے وطن عزیز سے کرپشن اور بدعنوانی کو ختم نہیں کیا جائے گا، ہمارے ملک میں ریلوے ہی کیا ہر ادارے کا یہی حال ہو گا کیونکہ جس ادارے میںبھی کالی بھیڑیں کام دکھاتی ہیں، اس کی بربادی تو لازمی ہوتی ہے۔ انگریز کی بچھائی ہوئی ریلوے لائنیں اب خاصی پرانی ہو چکی ہیں انہیں مرمت کی ضرورت ہے لیکن یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کون مرمت کروائے۔ہر کسی کو اپنی جیب نظر آتی ہے۔ عوام کی سہولت اور ملک کا مفاد کسی کو دکھائی نہیں دیتا ۔ 
دھنک کے صفحے پر جو تصویر شائع کی گئی وہ کراچی کے ریلوے اسٹیشن کی ہے جس کو دیکھ کر بڑا دکھ ہوا۔ کراچی ، عروس البلاد، روشنیوں کا شہر اور گاﺅں کے ڈھابے جیسا ریلوے اسٹیشن ،کسی ترقی یافتہ ملک سے آنے والا یہ حال دیکھے تو حیرت سے مر جائے۔ تصویر کا کیپشن لکھنے والے نے اسے ”بھائی پھیرو کاریل اڈہ“کہہ کر بھائی پھیرو کا مضحکہ اڑایا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ انگریز اس خطے سے کیا گئے، سارا نظام ہی اپنے ساتھ لے کر چلے گئے۔ انہوں نے اس خطے کی ترقی میں کافی اہم کردار ادا کیا۔ ریلوے لائنیں بچھائیں، سڑکیں تعمیر کرائیں۔ نہریں ، ڈیم بھی تعمیر کروائے۔ یہاں تک کہ نون لیگ کی طرح جا بجا پل بھی تعمیر کروائے اور نہ جانے کیا کچھ کیا۔ پنجاب میں نہری نظام دنیا کا اعلیٰ ترین نظام ہے بنا مگر ہم ان چیزوں کو سنبھال نہ سکے۔ ہم نے ان میں تھوڑا بہت اضافہ کرنے کی نیم کامیاب کوششیں کیں مگر جو ترقیاتی کام انگریز کر گئے ، ان کی ہم مثال پیش نہ کر سکے حتیٰ کہ آج ریلوے کا نظام بدحالی ، و خستہ حالی کا شاہکار بن کر منہ چڑا رہا ہے ۔ ریلوے کی پٹریاں ، اس کے پل یہ سارے انگریز تعمیر کروا کر گئے مگر ہم نے اس میں خاطر خواہ اضافہ تو نہیں کیا بلکہ جو بنا ہوا تھا اس کو بھی تباہ حال کرنے میں ہم نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ یہ حقیقت ہے کہ ریلوے ہمارے ملک کا دوسرا سب سے بڑا محکمہ ہے لیکن اس میں ہر طرف افراتفری، بدحالی ہے۔ کہتے ہیں کہ ٹرانسپورٹ مافیا ، ٹرک والوں اور ٹرالروالوں نے جان بوجھ کر اس ریلوے نظام کو تباہ کیا کیونکہ ریلوے نقل و حمل کا سب سے سستا ذریعہ ہے اور اس کی موجودگی میں ٹرانسپورٹ مافیا من مانے انداز میں نظام نہیں چلا سکتااورنہ ہی وہ کوئی منافع کما سکتا ہے ۔ ا س لئے انہوں نے ریلوے کو خستہ حال کر کے اپنے محل تعمیر کر لئے۔ اسی طرح ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ پی آئی اے جو دنیاکی بہترین ائیرلائنز میں شمار کی جاتی تھی ، اس کے پائلٹ دنیا کے بہترین پائلٹس گردانے جاتے تھے، پی آ ئی اے کے انجینیئرز اور اس کے پائلٹس نے خطے ممالک کی ائیرلائنز کومعیاری بنانے میں مدد کی۔ آج وہی پی آئی اے اپنی بربادی پر آٹھ آٹھ آنسو رو رہی ہے اور دوسری ائیرلائنز کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہیں۔ اسی طرح ہم نے اسٹیل مل کو بھی تباہی کے دہانے پر لا کر کھڑا کیا ہے یعنی ہر طرف تنزلی جاری و ساری ہے۔سوال یہ ہے کہ ہم ترقی کی بجائے تنزلی کی طرف کیوںجا رہے ہیں؟یہ ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ اس پر غور کرنے اور اپنے آپ میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ 
آج پاکستان میں سیاستدانوں او رعدلیہ میں چپقلش چل رہی ہے او رہمارے مسائل ہیں کہ منہ کھولے کھڑے ہیں کوئی ان کی طرف دیکھنا بھی گوارہ نہیں کرتا اور ان مسائل میں روز بروز اضافہ ہی ہو رہا ہے ۔ دوسری طرف یہ ریاستی ادارے آپس میں لڑ رہے ہیں۔ عوام تماشائی بن کر صرف تماشا دیکھ رہے ہیں اور ملک کا پرسان حال کوئی نہیں۔ 
ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاستی اداروں کی لڑائی کو ختم کیا جائے ۔ تمام اداروں کو مل کر ملک کی ترقی و خوشحالی کے لئے کام کرنا چاہئے اور ریلوے کی بدعنوانی کو ختم کرکے اس کو پھر سے پٹری پرڈالنا چاہئے۔ ہمیںپہلی دنیا کو دیکھ کر ان کی اچھی باتوں سے سبق حاصل کرنا چاہئے کہ انہوں نے کس طرح ترقی کی اور دنیا کے افق پر اپنا اور ملک کا نام روشن کیا ۔ ہمیں آپس میں مل جل کر صرف اور صرف وہی کام کرنا چاہئے جو ملکی مفاد میں ہو۔
 

شیئر: