سلمان الدوسری۔ الشرق الاوسط
گزشتہ سال جون میں سعودی عرب، امارات، بحرین اور مصر نے اپنے پڑوسی ملک قطر کے ساتھ تعلقات منقطع کئے تھے۔ اس وقت سے لےکر آج تک دوحہ اپنی مشرقی سرحد پر واقع پڑوسی ملک کے سامنے بچھا چلا جارہا ہے۔ اس برق رفتاری سے ایران کے ساتھ تعلقات قائم کئے جارہا ہے کہ اب گمان ہونے لگا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان کئی معاملات میں وجہ مشابہت پیدا ہوگئی ہے۔ وہ صرف ایک دوسرے قریب ہی نہیں ہورہے بلکہ مختلف بحرانوں سے نمٹنے میں بھی ایک جیسی پالیسی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ وہ 13شرطیں نہیں جنہیں مقاطعہ کرنےوالے ممالک نے تعلقات کی بحالی کےلئے عائد کیا ہے، نہ ہی اس کی وجہ وہ 12شرطیں ہیں جو امریکہ نے ایران پر جوہری معاہدے کے حوالے سے عائد کئے ہیںبلکہ قطر اور ایران کے درمیان وجہ مشابہت ان کی سیاسی پالیسیوں کی بناپر ہے۔ دونوں ملکوں نے اپنے تمام تر بحرانوں کو توپ کے دہانے پر رکھ چھوڑا ہے۔انہوں تمام مسائل آتش فشاں کے دہانے پر رکھے چھوڑے ہیں جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔ دوحہ کا یہ معاملہ ہے کہ اس نے خود کو اپنی تاریخ کے بدترین بحران میں پھنسا دیا ہے جس سے اسے نکلنے کی کوئی راہ سجھائی نہیں دے رہی۔ اسی طرح تہران کو بھی اپنی تاریخ کے بدترین بحران کا سامنا ہے جس سے نکلنے کی کوئی راہ نظر نہیں آرہی۔ یہ حقیقت ہے کہ دونوں ممالک کی طرزِ حکمرانی اور سسٹم ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہے تاہم بحرانوں سے نمٹنے میں دونوں کی پالیسی ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہے۔
دونوں ممالک درپیش بحرانوں کے حوالے سے عدم توجہی کی پالیسی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ وہ جان بوجھ کر گرد وپیش ماحول کو سمجھنا نہیں چاہتے۔ نہ ہی معلوم کرنے کی زحمت کرنا چاہتے ہیں کہ ان گرد دنیا میں کتنا بڑا تغیر واقع ہوچکا ہے۔ نہ دوحہ یہ بات سمجھنا چاہتا ہے کہ جن ممالک نے اس کا مقاطعہ کر رکھا ہے۔ ان کے حالات اب پہلے جیسے نہیں رہے۔ وہ اپنی اچھل کودپر جھوٹ ، افترا اور دھوکہ دہی سے پردہ نہیں ڈال سکتا،نہ ہی ایران نے حالات سے سبق سیکھا ہے کہ وائٹ ہاﺅس کا اب مکین ڈونلڈ ٹرمپ ہے جس کے سامنے آواز اونچی کرکے ، رو پیٹ کر اور دہائیاں دےکر مفادات کا حصول ممکن ہے۔ دونوں ممالک اپنی موجودہ پالیسیوں پر قائم رہتے ہوئے دنیا کو اپنی صف میں کھڑا نہیں کر سکتے، نہ ہی کسی طرف سے بھی کوئی ہمدردی سمیٹ سکتے ہیں۔ دونوں ممالک دھوکہ دہی اور ہیر پھیر پر پالیسیاں قائم کئے ہوئے ہیں۔ دونوں نے دہشتگرد تنظیموں سے کبھی چھپے اور کبھی کھلے تعلقات قائم کر رکھے ہیں۔ اس بات کا اعتراف بہر حال کرنا ہوگا کہ ایران کے مقابلے میں قطر دہشت گرد تنظیموں کی کم ہی مدد کرتا ہے۔
دونوں ممالک میں دوسری وجہ مشابہت یہ ہے کہ ان سے وہی کچھ مطلوب ہے جو دنیا کے تمام ممالک سے بھی مطلوب ہے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں مگر دونوں ممالک اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے سے فرار اختیار کر رہے ہیں۔ وہ اپنی ذمہ داریاں اس حجت کے تحت ادا نہیں کر رہے کہ یہ ان کی خود مختاری کا مسئلہ ہے خواہ ان کے عناد کی وجہ سے بحران طول پکڑجائے۔ دونوں ممالک کے درمیان تیسری وجہ مشابہت یہ ہے دونوں کو درپیش بحران کی وجہ سے زیادہ قربت کا موقع ملا ہے۔ ان کے تعلقا ت میں پہلے کی نسبت زیادہ استحکام اور مضبوطی آئی ہے۔ اپنے حالات کے پیش نظر اور عناد پر مبنی پالیسی کی وجہ سے وہ ایک دوسرے میں سہارا تلاش کرتے ہیں۔ ایک اور وجہ مشابہت یہ ہے کہ دونوں ممالک مسلح ملیشیا کی مدد کرتے ہیں۔ ایران اگر شام میں شیعہ مسلح ملیشیا کی مدد کرتا ہے تو قطر نصرہ فرنٹ کی مدد کر رہا ہے۔ ایران اگر یمن میں حوثی ملیشیا کی اسلحہ اور میزائل سے مدد کرتا ہے تو قطر بھی اس کی کم نہیں۔ وہ ان کی میڈیا کے ذریعہ پذیرائی کرتا ہے۔
آخری بات یہ ہے کہ قطر اور ایران کے سامنے بحرانوں سے نکلنے کےلئے واضح راستہ موجود ہے۔ دونوں ممالک کے سامنے شرائط کی فہرست موجود ہے جن پر عمل کرکے وہ اپنے بحرانوں سے نجات حاصل کرسکتے ہیں۔ وہ ان شرائط کو پورا کرنے میں جتنی تاخیر کریں گے ان کا بحران اس قدر گمبھیر ہوتا جائے گا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭