Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کاﺅس میں 80 ممالک کے طلباءکیوں؟

 فہد الاحمری ۔ الوطن
میں نے حال ہی میں ثول میں قائم شاہ عبداللہ یونیورسٹی برائے سائنس وٹیکنالوجی(کاﺅس)کا دورہ کیا۔ وہاں میں نے دنیا کے مختلف ممالک کے تخلیق کاروں ، لیباریٹریوں اور ٹیکنالوجیوں کا نیا جہاں دیکھا۔ بعض لوگوں کو اس یونیورسٹی کے دورے سے جو عجیب و غریب احساس ہوتا ہے میں اس سے دوچار نہیں ہوا۔میں نے جو کچھ دیکھا اسے اپنے تصور کے عین مطابق پایا البتہ میرے ذہن میں کئی حیران کن سوالات برپا تھے۔ یونیورسٹی کے عہدیداروں اور کارکنان سے ملاقات کے بعد انکے معقول جواب میرے ہاتھ لگ گئے۔ 
میں نے یونیورسٹی کی ترجمان سے دریافت کیا : یہ یونیورسٹی سعودی عرب ہی نہیں بلکہ پوری عرب دنیا کیلئے قابل فخر دانش گاہ ہے۔ترجمان خاتون نے جواب دیا: یہ پوری بنی نوع انسان کیلئے قابل اعزاز تعلیم گاہ ہے۔ میں یہ عبارت سن کر چونکا۔ مجھے سچ مچ احساس ہوا کہ یہ یونیورسٹی بین براعظمی کائناتی نظریہ اور وسعت نظری کا شاہکار ہے۔
اس اصولی اور مدلل جواب سے میرے ذہن میں کنگ عبداللہ یونیورسٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی کی لیڈر شپ ٹو کے ذہن میں برپا خیالات کو پڑھنے اور سمجھنے کا موقع ملا۔ یونیورسٹی کی نئی قیادت اس بات کا عزم کئے ہوئے ہے کہ درپیش عظیم چیلنجوں سے نمٹنے اور عظیم الشان اہداف حاصل کرنے کیلئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا جائیگا۔ اس یونیورسٹی کی عمر زیادہ نہیں۔ اس درجے کی دیگر یونیورسٹیاں اپنی تاریخ کے حوالے سے کافی پرانی ہیں۔
یونیورسٹی کا مختصرسا تعارف سننے کے بعد میں ڈاکٹر نجاح عشری کے دفتر سے نکل رہا تھا۔ ڈاکٹر نجاح سے مزاحیہ انداز میں عرض کرنے لگا کہ میں اس چکر میں ہوں کہ مجھے یونیورسٹی کے کچھ منفی پہلو اور کچھ ایسی خامیاں ہاتھ آجائیں جنہیں میں اپنے قارئین کو تحفے کے طور پر پیش کرسکوں۔
ڈاکٹر نجاح نے فوراً ہی جواب دیا کہ میں آپ کا مسئلہ حل کردیتی ہوں۔ حق او رسچ یہ ہے کہ ہم سے غلطیاں بھی ہوتی ہیںاور ہمارے یہاں منفی امور بھی پیش آتے ہیں۔ ہاں ہم لوگ فوراً ہی ان کی اصلاح اور اپنی غلطیوںسے سبق سیکھنے کا فوری اہتمام کرتے ہیں۔ یہ سن کر مجھے یقین ہوگیا کہ یہی سوچ کامیابی کی نشانی ہے۔
یونیورسٹی میں جس شخص سے میری سب سے پہلے ملاقات ہوئی وہ ناشتے کی میز پر میرے پہلو میں بیٹھا ہوا تھا۔ گفتگو سے پتہ چلا کہ اسکا تعلق الجوف یونیورسٹی سے ہے۔ وہ وہاں لیکچرار ہے۔ کاﺅس کی دعوت پر یونیورسٹی آیا ہوا ہے۔ یہ جان کر مجھے خوشی ہوئی کہ یونیورسٹی سعودی عرب کی دیگر جامعات کے ساتھ بھی تعاون کے رشتے استوار کئے ہوئے ہے۔
دیگر لوگوں کی طرح میرے ذہن میں بھی ایک سوال بار بار کوند رہا تھا کہ یہاں تعلیم و تدریس کیلئے آنے والوں کا تعلق 80ممالک سے ہے۔ آخر یہ لوگ اپنے یہاں کی نامور یونیورسٹیوں کو چھوڑ کر کاﺅس میں پڑھنے پڑھانے کیلئے کیوں آئے ہیں؟ یہ درست ہے کہ انہیں کاﺅس کی جانب سے تسلی بخش تعلیمی و تدریسی وظیفہ مل رہا ہے مگر دولت سب کچھ نہیں ہوتی، خاص طور پر یگانگہ روزگار اسکالرز کے یہاں دولت ثانوی حیثیت رکھتی ہے۔ انہیں ہر جگہ سرپرست مل جاتے ہیں۔ پھر مغربی دنیا میں مملکت کے مقابلے میں ترغیبات کا دائرہ بیحد وسیع ہے۔ یونیورسٹی میں جن لوگوں سے میں ملا ،ان سب نے متفقہ بات یہ کہی کہ شاہ عبداللہ یونیورسٹی آمد کا بنیادی ہدف یہ ہے کہ یہاں ایک چھت تلے سائنسی ریسرچ کے جو وسائل اور جو ذرائع مہیا ہیں وہ شاید ہی آپ کو دنیا کی کسی یونیورسٹی میں مل سکیں۔ پینسلوانیہ یونیورسٹی کے معاون پروفیسرمائیکل ہکنر نے کہاکہ ”کاﺅس کے یہاں جو وسائل ہیں وہ ہمارے یہاں نہیں“۔ بائیو لوجی کی جرمن سائنٹسٹ پروفیسر شارلوٹ ہوز نے بتایا کہ ”یہاں کے لیب انتہائی اعلیٰ درجے کے ہیں۔ یونیورسٹی فیاضانہ فنڈ فراہم کرتی ہے۔ یہ اکیڈمک آزادی کا وہ ماحول تخلیق کئے ہوئے ہیں جس کا تجربہ یہاں سے پہلے مجھے کہیں نہیں ہوا“۔
یونیورسٹی کے ایک عہدیدار نے مجھے بتایا کہ یہاں کے 50فیصد فضلاءغیر سعودی ہیں۔ یہ سب لو گ اپنی مرضی سے سعودی عرب میں سکونت پذیر ہیں۔مجھے اس بات سے بہت زیادہ دلچسپی نہیں ہوئی ۔ میری دلچسپی کا محور یہ تھا او رہے کہ اس یونیورسٹی کے فضلاءاپنے وطن جاکر اپنے ملک و قوم کی کیا کچھ خدمت کرینگے اور ہمارے سعودی فضلاءیہاں سے حاصل علوم و تجربات کے بل پر اپنے وطن اور امت کو کیا کچھ نفع پہنچائیں گے؟
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: