Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کروڑوں سال قبل ڈائنا سور کی جلد بھی ہم انسانوں کی طرح جھڑتی رہتی تھی

 لندن ..... ماہرین کا کہنا ہے کہ جب کوئی جانو رزندہ رہتا ہے اور اچھی خاصی عمر ہونے لگتی ہے تو اسکی جلد خشک ہونا شروع ہوجاتی ہے اور کریٹین نامی پروٹین کی زیادتی کی وجہ سے جلد کا جھڑنا شروع ہوجاتا ہے۔ جسے میڈیکل سائنس سر کی خشکی کی طرح ڈینڈرف قرا ر دیتی ہے۔ آئرلینڈ کی یونیورسٹی کالج کے سائنسدانوں کا کہناہے کہ انہوں نے جو جلد کے انحطاط و زوال نیز خرابی کے جو شواہد حاصل  کئے ہیں وہ اس بات کا اپنی قسم کا پہلا ثبوت ہے کہ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ زمانہ قدیم کے  انتہائی قد آور جانور ڈائنا سور کی جلد یا کھال کس طرح رفتہ رفتہ اتر جاتی تھی۔ سائنسی نکتہ نظر سے  فواصل کی شکل اختیار کرنے والی خشکی جن خلیوں سے بنتی ہے وہ مضبوط اور موٹے ہوتے ہیں تاہم اسکے اندر کوئی زندگی نہیں ہوتی۔ وہ کریٹین نامی پروٹین کا خزانہ ہوتا ہے۔  یہ تحقیقی رپورٹ تیا رکرنے والی  ٹیم ڈاکٹر ماریہ میکنمارا کی قیادت میں کام کررہی تھی اور اپنے تحقیقی کام کے دوران اس ٹیم نے انتہائی طاقتور اور موثر قسم کے الیکٹرون دوربینوں کی مدد سے کروڑوں سال پرانے ڈائنا سور کی جلد اور اسکی حالت کا تجزیہ عصری پرندوں کی کھالوں سے کرنے کے بعد شائع کیا۔ اس حوالے سے ایک تفصیلی رپورٹ نیچر کمیونیکیشن جریدے کے تازہ ترین شمارے میں شائع ہوئی ہے۔ اس تحقیق کی سب سے اہم اور خاص بات یہ ہے کہ فوسل میں تبدیل ہونے والی  خشکی  اور عصری پرندوں  کی جلد  پر نمایاں ہونے والی خشکی میں بڑی مماثلت ہے۔ ڈاکٹر ماریہ کا کہنا ہے کہ یہ تحقیقی رپورٹ پرندوں اور دوسرے جانوروں کی جلد ہی ارتقائی کیفیتوں پر تفصیلی نظر ڈالنے میں مدد گار ثابت ہوگی۔یہ اپنی قسم کی پہلی رپورٹ ہے اور اسکے لئے ایسے ڈائنا سورز کو زیر تجربہ لایا گیا جن پر کسی زمانے میں ریشے اور پربھی ہوتے تھے اور روایتی اعتبار سے وہ  ا ڑ بھی سکتے تھے۔ آج کے زمانے کے  رینگنے والے  جانوروں کی جلد بھی اسی  ضمن میں آتی ہے۔ واضح ہو کہ ڈائنا سور کے خاتمے کا زمانہ جراسک عہد کے  خاتمے کے زمانے کے بہت آس پاس ہے۔ جس اڑنے والے ڈائنا سو ر کے فوسل پر تحقیقی کام کیا گیا وہ اب سے 16کروڑ 10لاکھ سال پہلے شمال مشرقی چین میں موجود ہوتے تھے اور ان کے پر رنگ برنگے ہوا کرتے تھے جنہیں کائیہونگ کہا جاتا تھا۔ جس کے معنی قوس و قزاح کے ہوتے ہیں۔
مزید پڑھیں:- - - - -گڑیوں کے بعد ’’باربی کاریں‘‘ رفتار 70میل فی گھنٹہ تک ہوسکتی ہے

شیئر: