Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سحر

***محمد مبشر انوار***
زندگی خواہشات،امیدوں اور اچھے وقت کے انتظار میں کبھی صحرا میں تپتی دھوپ کی مانندتو کبھی اماوس کی لمبی رات کا احساس لئے گزرتی چلی جاتی ہے تا آنکہ انسان اپنی ان خواہشات،تمناؤں اور امیدوں کی تکمیل ہوتے نہ دیکھ لے یا اس کی اپنی تکمیل نہ ہوجائے۔ رات عام ہو یا اماوس کی،اسے کبھی نہ کبھی ختم ہوناہوتا ہے، کبھی یہ رات انسان کی زندگی میں جلد آ جاتی ہے تو کبھی اس میں تاخیر ہو جاتی ہے مگر یہ تاخیر اس لمحے کسی اور کیلئے سحر بن رہی ہوتی ہے کہ کسی کی جدوجہد کا پھل کسی اور کے نصیب میں ہوتا ہے۔تحریک پاکستان کی ابتداء کرنے والی نسل اور تھی، اس تحریک میں مشقتیں ،مشکلیں اور کلفتیں سہنے والی نسل دوسری تھی مگراس کے ثمرات سے بہرہ ور ہونے والی نسل اور ہے۔ پاکستان کے آزاد ہونے پر جو نئی سحر اس قوم کو نصیب ہوئی تھی،اس سحر کی تمنا ،آرزو میں کتنے سہاگ لٹے،کتنی بہنیں اجڑی،کتنی ماؤں نے جان دی،کتنی بیٹیوں نے قربانیاں دیں،کیسے کیسے گبھرو اُس پر نثار ہوئے،سب کچھ تاریخ میں ہمیشہ کیلئے محفوظ ہے اور رہے گامگر اس 70سالہ زندگی میں سحر نے کیسی کیسی کروٹ لی،کیسی کیسی تبدیلی اس پاکستان میں ہوئی،اس کا شمار جہاں ایک طرف احساسِ تفاخر لئے ہوئے ہے تو دوسری طرف ندامت و شرمساری ہے کہ سر اٹھانے نہیں دیتی۔قائد اعظم اور لیاقت علی خان کے بعد طلوع ہونے والی سحر نے اقتدار کے بھوکوں ،خوئے غلامی میں لتھڑے غلام ذہنوں نے اقتدار کی غلام گردشوں میں سازشوں کے جال بننے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ آمریت نے اس ملک پر اپنے پنجے گاڑ دئیے،بیک جنبش قلم منجھے ہوئے سیاستدانوں کی گھر بھیج دیا اور ان روادار سیاستدانوں کا ظرف ملاحظہ ہو کہ سیاست کی اس گندگی میں مزید لتھڑنے کی بجائے خاموشی سے گھر جا بیٹھے کہ ان کے نزدیک یہ وہ سحر ہی نہ تھی ،جس کیلئے ا نہوں نے کبھی جدوجہد کی تھی۔
لیکن یہ اختتام نہ تھا بلکہ یہ تو آغازتھا ایک ختم نہ ہونے والے طوفان بدتمیزی کا کہ جس میں جو جتنا زیادہ مظاہرہ کر سکے گا وہی چمپئن بننے کا اہل ہو گا۔منتقم مزاج بھٹو نے اس میں حصہ بقدر جثہ ڈالا تو ضیاء الحق بھی کسی سے پیچھے نہ رہے۔ اس قوم کی تخلیقی صلاحیتوں پر جس طرح قدغن لگائی گئی اور معاشرے میں گھٹن کو پروان چڑھایا گیا ۔اس کا خمیازہ ہم آج بھگت رہے ہیں مگر اس کھیل میں تیزی اور انتہا گردی کا مظاہرہ 80/90کی دہائی میں پاکستان مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے میاں نواز شریف اور ان کے حواریوں کے حصے میں آیا کہ جو بد تہذیبی و بد تمیزی اس دور میں ہوئی،الامان و الحفیظ۔ ہر طرف بلا کسی رکاوٹ بد تہذیبی ننگا ناچ رہی تھی،آوازے کسنے میں،فحش کلمات سے نوازے جانے میں،ذو معنی گفتگو کرنے میں،کسی کی بہو ،بیٹی یا کسی بھی مخالف کا کردار و عزت محفوظ نہیں تھی۔ اس حمام میں ایسی ایسی کارستانیاں کی گئیں ،ایسا ایسا مواد تیار کیا گیا کہ آج بھی لکھتے ہوئے شرم آتی ہے کہ دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی اس جماعت اور اس کے قائدین نے کیا کیا حرکتیںکی تھیں۔ سیاسی میدان تعفن زدہ اور گھٹن کا شکار ،معاشرے کو گھسیٹتے ہوئے ایسے ماحول کا عادی بنایا گیا جس میں تازگی و شگفتگی کا عنصر مسلسل نا پید ہوتا گیا۔ میاں نواز شریف اس وقت ،نہ جانے کس کے کہنے پر یا کس خلائی مخلوق کے اشارے پر آنکھیں بند کئے یہ گھناؤنا کھیل کھیل رہے تھے کہ مکافات عمل کو سرے سے بھول چکے تھے،ان کے نزدیک ممکن ہے کہ ساون کا ہرا سدا رہنا تھا لیکن ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں،آج ان کا تخت تقریباً الٹا جا چکا ہے اور اب اس میدان میں نیا ’’کھلاڑی‘‘ وارد ہو چکا ہے۔ اس کھلاڑی نے بھی اس طوفان بدتمیزی کو روکنے یا ٹھہراؤ لانے کی بجائے اس میں اپنا حصہ بقدر جثہ ڈال ہی دیا ہے۔ اس وقت تو حالت یہ ہے کہ جن پڑھے لکھوں پر خان کو گھمنڈ تھا،ناز تھا آج وہی پڑھے لکھے،اس قدر جوشیلے بنے ہیں کہ انہیں اس کا احساس تک نہیں کہ وہ کہاں بیٹھے ہیں،وہ کس جماعت کی نمائندگی کر رہے ہیں۔کل جہاں میاں نواز شریف اور ان کے حمایتی زبانی حملے کرتے تھے،خان کے کھلاڑی اس سے ایک قدم آگے بڑھ چکے ہیں اور نوبت ہاتھا پائی تک آ چکی ہے۔ 
بات یہیں تک محدود نہیں بلکہ اس ملک کے رکھوالے بھی کیا کیا گل کھلا رہے ہیں،اس پر بھی حیرت ہوتی ہے ۔ابھی تک شاک سے نہیں نکل پایا کہ یہ کیسا ملک ہے اور کس طرح چل رہا ہے کہ جہاںعسکری اداروں کے سربراہان تک اپنے روایتی دشمن کے ساتھ مل کر کتابیں لکھ رہے ہیں اور ان کتابوں میں بعینہٖ وہی باتیں دہرائی جاتی ہیں جن کی بنیاد پر سویلینز کو قابل تعزیر گردانا جاتا ہے۔ بقول مجیب الرحمن شامی  جنرل درانی کو یہ رعایت اپنے بیٹے کی ممبئی ائیرپورٹ پر پکڑے جانے کے بعد دینی پڑی،تو کیا سمجھا جائے کہ جنرل درانی نے بھی ذاتی مفاد کو قومی مفاد پر ترجیح دی؟گو کہ میجر جنرل آصف غفور نے ٹوئٹ پر جنرل درانی کو جی ایچ کیو طلب کئے جانے کی نوید سنائی ہے،دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے،کیا واقعی جنرل درانی پر ملٹری ایکٹ کے مطابق کارروائی کی جاتی ہے یا اشک شوئی کی رسم پوری کر کے قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکی جائے گی۔ کیا اب وقت آ نہیں گیا کہ ہر کس و ناکس کو اس کے کئے کی سزا قانون میں لکھے ہوئے کے مطابق دی جائے اور یہ سزا نہ صرف عوام کو نظر آئے بلکہ سب کیلئے عبرتناک مثال بھی بنے تا کہ کل کو کوئی ایسی حرکت کرنے کا سوچ بھی نہ سکے۔ مجھے پاکستان کی تاریخ کا وہ واقعہ یاد آتا ہے جب بابائے قوم کو بھی روک دیا گیا تھا،جس پر انہوں نے برا منانے کی بجائے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب تک ایسے لوگ قوم میں موجود ہیں،اس کو ترقی کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔آج مگر حالات مختلف ہیں اور ہر کوئی صاحب حیثیت کے کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ بخدا یہ وہ سحر تو نہیں ،جس کی آرزو میں ،جستجو میں ہمارے بڑوں نے قربانیاں دے کر،عزتیں عصمتیں لٹا کر ،نوجوانوں اور جوانوں کے جنازے اٹھا کر یہ ملک حاصل کیا تھا۔ 
لیکن اس کے باوجود جس سحر کی آرزو اور تمنا میں یہ ملک حاصل کیا گیا تھا اس کی ایک مثال فاٹا کا کے پی کے میں انضمام ہے جو دیر آئد درست آئد کے مصداق بالآخر ہو گیا ہے۔ در حقیقت پاکستان کو اس سرحد سے روس کی پسپائی تک کوئی مسئلہ ہی نہ رہا تھا بلکہ افغانستان کو ہمیشہ اپنا بھائی سمجھا۔کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ وہاں کے حالات اس قدر بدل جائیں گے اور یہ خطہ عالمی استعمار کیلئے کتنی اہمیت اختیار کر جائیگاکہ وہ اسی خطہ میں بیٹھ کر پاکستان کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کی کارروائی بھی کر سکے گا۔ ہمارے پالیسی ساز بزرجمہروں نے اس حوالے سے ہمیشہ سے یک سمتی پالیسی وضع کی اور کبھی بھی دشمن کی چالوں کو یا متبادل منصوبہ بندی یا ممکنات کو تصور ہی نہیں کیا بلکہ اپنی دانست میں وضع کردہ پالیسی کو ہی حتمی تصور کرتے رہے،جس کا آج یہ نتیجہ نکلا ہے کہ پاکستان ہر طرح کی قربانیوں اور حمایت کے باوجود افغانیوں کیلئے بھی نا قابل اعتبار اس لئے ٹھہر چکا ہے کہ دوسرے اسٹیک ہولڈرز نے اس کی اتنی تشہیر کر دی ہے کہ آج افغانستان ان کا ہمنوا بن کر پاکستا ن کو نقصان پہنچانے کے درپے ہے۔ اس پس منظر میں فاٹا کا اصلاحاتی بل پارلیمنٹ سے منظور ہونا واقعتاوہ خوشنما سحر ہے جسے بہت پہلے طلوع ہو جانا چاہئے تھا۔
 

شیئر:

متعلقہ خبریں