Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عوامی شعور اور قیادت

***محمد مبشر انوار***
@MMAnwaar
ریاستوں کی ترقی،فلاح وبہبود،معاشرے میں قانون کی بالا دستی براہ راست عوامی شعور اور ذمہ دارو مخلص قیادت سے مشروط اور لازم و ملزوم ہیں ،کسی ایک کی عدم موجودگی اچھی سے اچھی ریاست کو تباہ کر دیتی ہے ۔اس وقت ترقی یافتہ ریاستوں کی فہرست میں یہ دو بنیادی عنصر اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ معاشروںمیں موجودہیں اور ریاستیں دن بدن ترقی کے نت نئے افق طے کر رہی ہیں۔حالیہ انسانی تاریخ میں چند مثالیں ایسی موجود ہیں جہاں خواب خرگوش میں مست قوموں کی بیدار مغز قیادت نے نہ صرف اپنی قوم کی تشکیل کی بلکہ ان کیلئے ایک نظریہ حیات کو دوبارہ زندہ کیا یا ایک نیا نظریہ حیات دیا۔ بر صغیر کے بے سمت مسلمانوں کی رہنمائی ایک ایسے رہنما نے کی،جس کی امانت و صداقت کسی شک و شبہ سے بالا تر رہی اور جس نے ایک دیوار سے لگی ،کسمپرسی کی ماری،بے سمت قوم کی ایسے رہنمائی کی کہ سب سے پہلے ان کے بکھرے ہوئے شعور کو سمیٹ کر ایک،ایک قوم میں تبدیل کیا،انہیں ایک سمت دے کران کو ایک وطن دلوایا جہاں وہ آزادی کے ساتھ اپنے عقائد کے مطابق زندگی بسر کر سکیں۔ اسی طرح ہمسایہ ملک چین کی مثال ہمارے سامنے ہیں ،کس طرح ایک سوئی ہوئی قوم کو نہ صرف دنیا کی بہترین قوم میں تبدیل کر دیا بلکہ اسی سست الوجود قوم کو اتنا چست کر دیا ہے ،ان کے اذہان میں ایسی بجلی بھر دی،ایسی توانائیاں مہیا کردیں،ایسے وسائل فراہم کر دئیے کہ انکی ترجیحات ہی سرے سے بدل گئی اور آج چین نہ صرف بحیثیت ایک ریاست اقوام عالم میں اپنا اعلی مقام بنا چکا ہے بلکہ صنعتی انقلاب نے اسے دنیابھر کی چیدہ چیدہ مصنوعات کو چین کی صنعت میں گھول دیا ہے۔ معاشرے میں ناسور کی حیثیت رکھنے و الی بیماری،کرپشن پر کسی صورت کوئی بھی سمجھوتہ چینی حکومت کرنے کیلئے تیار نہیں اور کرپشن میں ملوث کسی بھی شخصیت کو ،جرم ثابت ہونے پر گولی مار دی جاتی ہے،نتیجہ آج سب کے سامنے ہے کہ چین دن دگنی رات چوگنی ترقی کی منازل طے کر رہا ہے۔  
نیلسن منڈیلا کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ کس طرح تن تنہا شخص نے اس وقت تک سامراج سے ٹکڑ لئے رکھی جب تک اپنی قوم کو ان کے چنگل سے چھڑوا نہیں لیا،چین سے نہیں بیٹھا۔ ترکی کے صدر طیب رجب اردگان نے ایک تباہ حال قوم کو اپنے پیروں پر کھڑا کر کے دکھا دیا کہ اگر قیادت مخلص ہو ،قوم کو ایک لڑی میں پرونے کی صلاحیت رکھتی ہو،اس کی کاوشیں نیک نیتی پر مبنی ہوں تو یہ کوئی مشکل کام نہیں کہ پستی میں گری قوم کو دوبارہ نہ صرف اپنے قدموں پر کھڑا کر دیا جائے بلکہ اس کی کھوئی ہوئی عزت بھی بحال کروائی جا سکتی ہے، تباہ حال معیشت کو نہ صرف تعمیر کیا جا سکتا بلکہ عالمی مالیاتی اداروں کو قرض دینے کے بھی قابل ہو اجا سکتا ہے۔ حالیہ مثال ملائیشیا کی ہے جہاں مہاتیر محمد،جو 25 سال تک اپنی قوم اور وطن کی تعمیر میں جتے رہے او رخود اپنے ہی ہاتھوں سے اپنا جانشین بھی تیار کیا مگر بد قسمتی سے وہ جانشین کھوٹا سکہ ثابت ہوا۔ ملک و قوم کا درد رکھنے والے92 سالہ مہاتیر محمد اس سارے عمل پر صرف کڑھتے ہی نہیں رہے ،ملک و قوم کی بربادی کا نظارہ کرنے کی بجائے عمر کے اس آخری حصے میں ایک بار پھر خم ٹھونک کر میدان میں اترے اور اپنے ہی جانشین کو شکست فاش دے کر ایک بار پھر امور مملکت سنبھال چکے ہیں۔ وائرل ہوئی ویڈیو کے مطابق ان کا پہلا حکم نامہ ہی اپنے جانشین کے خلاف تھا کہ اسکے گھر کی تلاشی لی جائے اور تمام مال و زر ضبط کر لیا جائے ۔جب سے یہ ویڈیودیکھی ہے ،گنگ ہوں کہ کیسے عوام کو دھوکہ دیا جاتا ہے اور کس طرح ان کے حقوق کو ذاتی ملکیت میں تبدیل کر لیا جاتا ہے۔ ملائیشیا کے سابق حکمران کے ایسے کرتوت پر کس طرح مہاتیر محمد جیسا شخص خاموش تماشائی بن سکتا تھا،جس نے بھر پور لگن ،محنت،خلوص نیت اور قوم پرستی میں مغلوب، اپنی قوم کی تعمیر کی تھی،جس نے عوامی شعور کی بنیاد رکھی تھی،اپنے ملک کی معیشت کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا کیا تھا یہ کیسے ممکن تھا کہ اس کے جیتے جی اس کے ملک وقوم کی بنیادیں کھوکھلی کر دی جاتی؟محنت سے سینچے گئے پودے کو بچانے کیلئے مہاتیر محمد کو ایک بار پھر میدان عمل میں اترنا پڑا اور یہ اس کی اخلاقی ساکھ کے علاوہ وہ شعوری تربیت تھی جو اس نے اپنی قوم کی، کی تھی کہ قوم اپنے مسیحا کے ساتھ کھڑی ہوئی۔ مہاتیر محمد کی اس فتح کے پیچھے یقینی طور پر اداروں کی مضبوطی اور ان کی ساکھ بہر طور موجود ہے کہ اداروں نے اپنے فرائض منصبی کما حقہ ادا کئے کہ ابھی تک کہیں سے کسی بے ضابطگی کی کوئی آواز سنائی نہیں دی۔
جس قوم کی سمت کا تعین،شعور کی بیداری ،بطور قوم تربیت اور اسلامی اقدار کی پیروی کرنے کی خاطر ایک آزاد وطن کے قیام کے لئے بابائے قوم نے محنت کی تھی،اس قوم کے شعور کو سلانے کی آج جو شعوری کوششیں ہورہی ہیں،اسلامی اقدار کی پیروی کرنے سے جس طرح روکا جا رہا ہے بلکہ ایک طرح سے اسلامی شعائر کا مذاق اڑایا جا رہا ہے،خود احتسابی اور محاسبہ کے وہ زریں اصول جو اسلام نے اس دنیا کو پیش کئے تا کہ فلاحی ریاست کی بنیاد رکھی جا سکے،طبقاتی تفریق کا خاتمہ کیا جا سکے،معاشرے کے ہر فرد کو برابر کے حقوق میسر ہوں،زندگی کی تمام تر آسائشوں تک شہریوں کی رسائی ہو،حکومت اپنے ہر کام کے لئے عوام کو جوابدہ ہو لیکن آج شہریوں میں مرتبے اور حیثیت کی بنیاد پر تقسیم ،امیر و غریب کے لئے مختلف قانون،عوامی حقوق پر ڈاکے،عوام کے لئے زندگی اجیرن جبکہ اشرافیہ کے لئے اس زمین پر جنت کے واضح نمونے دیکھے جا سکتے ہیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ 1947میں آزادی حاصل کرنے والی اس قوم نے اپنی تمام توانائیاں اس نو آموز ریاست کی نذر کر دیں،انتہائی نا مساعد حالات کے باوجود ملک و قوم کو ترقی کی راہ پر گامزن کردیا،ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر قربان کر دیا،تقسیم سے قبل جاگیروں کے مالک مرتے وقت پھٹے ہوئے کپڑوں میں ملبوس پائے گئے،اچکن کے نیچے زیب تن کرنے کے لئے کوئی ڈھنگ کی شرٹ تک میسر نہ رہی مگر ریاست کے مفادت کا تحفظ کرتے رہے۔ گزشتہ 35/40سالوں سے اس قوم کی حالت بتدریج بری طرح تنزلی کا شکار رہی،اس کو لوٹنے والے کوئی اور نہیں بلکہ اس کے وہ مفاد پرست حکمران تھے،جن کی تقسیم سے پہلے یا اقتدار میں آنے تک کوئی خاص مالی حالت نہ تھی مگر اقتدار حاصل کرتے ہی ان کے ذاتی اثاثہ جات کو پر لگے اوران کے کاروبار نے ایسی چوکڑی بھری کہ ساری دنیا حیران ہے۔ قوم کی رگوں سے ’’قومیت‘‘ کا رس نچوڑا گیا،قومی مفادات کو ثانوی حیثیت دینے پر مجبور کیا گیا اور نہ ماننے والوں کو نشانہ عبرت بنایا گیا،ابھی بھی وقت ہے کہ قوم اپنی کھویا ہوا شعور اور مخلص قیادت کی طرف رجوع کرے وگرنہ خاکم بدہن ،کہیںبہت دیر نہ ہو جائے کہ مخالفین کی گندی نظریں مملکت خداد پاکستان کے وجود پر لگی ہیںاور وہ پوری تندہی سے اس کے وجود سے کھیلنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ یہ قوم کا فرض ہے کہ وہ آج کے ملائیشیا سے سبق سیکھے ،اپنے شعور کو جھنجھوڑے اور مخلص قیادت کا انتخاب کرے۔ 

شیئر:

متعلقہ خبریں