یمنی بحران کے حوالے سے مذاکرات، ایران کی نئی چال
عبدالرحمن الراشد ۔ الشرق الاوسط
ایسے وقت میں جبکہ یمن کی سرکاری افواج الحدیدہ بندرگاہ کی طرف یلغار کررہی ہیں، یہ بندرگاہ باغیوں کیلئے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ ایران نے یمن کے معاملے پر مذاکرات کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔
ایران کے معاون وزیر خارجہ عباس عراقجی نے کہا ہے کہ ایرانیوں کو ایٹمی معاہدے ، بیلسٹک میزائل سازی اور خطے میں ایرانیوں کے اثر و نفوذ کے درمیان ربط و ضبط پیدا کرنے سے متعلق امریکہ کے مطالبات منظور نہیں البتہ ایران یمن پر مذاکرات کیلئے تیار ہیں۔
ایرانی حکومت امریکی مطالبات کے حوالے سے اپنا گورکھ دھندہ چلانے کے چکر میں ہے۔ ایرانی حکومت چاہتی ہے کہ عالمی رائے عامہ کے سامنے اسکا وقار بنا رہے۔ ایرانی حکومت نے یمن پر مذاکرات کی پیشکش اس لئے کی ہے کیونکہ اسے علم ہے کہ اب وہ یمن کا ”پتہ “ہار چکا ہے۔ عرب اتحادی پیشرفت حاصل کررہے ہیں اور اسکے اتحادی حلیف پے درپے شکست کھاتے چلے جارہے ہیں۔ شام میں ایران پسپائی اختیار کرنے لگا ہے۔ ایران کہہ رہا ہے کہ وہ جنوبی شام کی طرف پیشرفت نہیں کریگا۔ ایران کا یہ دعویٰ اس کی آخری فتح کے بعداسکے کئے گئے دعوﺅں کے سراسر منافی ہے۔ ایران نے دمشق کے اطراف قائم الیرموک فلسطینی کیمپ تباہ کرکے اعلان کیا تھا کہ اب اسکے جنگجو اردن کے بالمقابل واقع درع کی طرف پیشقدمی کرینگے۔ عمان میں ایرانی سفیر نے واضح کیا کہ انکا ملک اردن یا اسرائیل کے قریبی علاقوں میں اپنے عسکری نہیں بھیجے گا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ گزشتہ 2ہفتوں کے دوران اسرائیلی بمباری اور روس کے نئے موقف کے باعث ایران کو ہونے والے زبردست خسارے نے اپنے آپ کو سمجھنے پر مجبور کردیا ہے۔ روس شام میں ایران کے فضائی تحفظ کے رویئے سے دستبردار ہوگیا ہے۔
یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوچکی ہے کہ ایرانی بڑے حقیقت پسند ہیں۔ وہ عالمی روایات اور معاہدوں سے کہیں زیادہ طاقت کے آگے جھکتے ہیں۔ اگر یمن میں انکے اتحادی حوثی زبردست خسارے سے دوچار نہ ہوتے تو وہ یمن کی بابت کسی بھی حالت میں مفاہمت قبول کرنے پر آمادہ نہ ہوتے۔ اسی طرح شمالی اردن اور مشرقی اسرائیل کے اطراف مقامات سے دور رہنے کے بعدایسی حالت میں کبھی نہ کرتے اگر اسرائیل نے شام میں انکے ٹھکانوں پر بمباری کرکے انہیں سبق نہ سکھایا ہوتا۔اسکا مطلب یہ ہے کہ آئندہ ایام میں ایرانی حکمراں امریکہ کو اپنے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کرنے سے روکنے یا پابندیوں کی شدت میں کمی لانے اور ایٹمی معاہدے کو از سر نو موثر بنانے کیلئے اپنی پرانی ”ہٹ“ سے پیچھے ہٹیں گے۔
امریکہ نے ایران سے 12مطالبات کئے ہیں۔ ان میں 3بنیادی نوعیت کے ہیں۔ پہلا یہ کہ ایران بیلسٹک میزائل کی تیاری بند کرے۔ دوسرا یہ کہ شام ، یمن او رلبنان میں امریکی اتحادیوں کےخلاف جنگ زدہ علاقوں سے نکلے۔ تیسرا یہ کہ عراق کے اندرونی امور میں مداخلت بند کرے۔ یہ تینوں امریکی مطالبات ایران کی خارجہ پالیسی کے ستون کو ٹھکانے لگانے کیلئے کافی ہیں۔ ہمیں جو بات نظر آرہی ہے وہ یہ ہے کہ ایرانی پہلے تو اپنے نقصان کے سودے کو ترجیح دیں گے۔ حوثیوں کی شکست ، ایرانیوں کو پسپائی پر مجبور کریگی۔ جہاں تک شام کا تعلق ہے تو یہ ایران کیلئے انمول ہے۔ اس سے دستبرداری بڑی مشکل ہوگی۔ وہاں وہ اربوں ڈالر بھی لگاچکا ہے اور بڑی تعداد میں اپنے فوجی اور جنگجو بھی کھو چکا ہے۔ شام سے دستبرداری کا مطلب لبنان میں اثر و نفوذ کا خاتمہ بھی ہے جہاں وہ کم از کم 30ارب ڈالر لگائے ہوئے ہے۔
غالب گمان یہ ہے کہ ایران شام میں اسرائیل کیساتھ افہام و تفہیم پیدا کرکے اپنی افواج کی تنظیم ِنو کریگا۔ ایران وعدہ کریگا کہ وہ اسرائیل پر نہ خود حملہ کریگا اور نہ اپنی ماتحت تنظیموں کو اس کی اجازت دیگا۔ ایران شام کو پوری قوت کے ساتھ پکڑے ہوئے اور اسے علاقائی حکمت عملی کا کلیدی نکتہ قرار دیئے ہوئے ہے۔ اسکی بدولت ہی وہ عراق و لبنان میں اپنا اثر و نفوذ بچا سکے گا۔ ممکن ہے کہ ایران 3سال بعد شام سے مکمل انخلاءپر راضی ہوجائے۔ ایران یمن میں جنگ بندی کے بدلے حوثیوں کو اقتدار اور پارلیمنٹ میں انکے حجم سے کہیں زیادہ بڑا حصہ دلانے اور بھاری اسلحہ اپنے پاس رکھنے کی اجازت دلانے کی کوشش کریگا۔ ظاہر بات ہے کہ ایران کے یہ دونوں مطالبے نہ یمنیوں کیلئے قابل قبول ہونگے اورنہ ہی اتحادی ممالک کیلئے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭