زندگی وقت بدلتے رہنے کا نام ہے اور وقت کبھی ایک سا رہتا نہیں،لمحوں میں بدل جانے والی کیفیت،پل پل مختلف رنگ بدلتی،کبھی دکھ کبھی راحتیں بکھیرتی زندگی اپنے ڈھب سے گزرتی ہے۔ کبھی فرصت کے طویل پل(جو کبھی میسر ہوتے تھے)جہاں یاد ماضی ذہن نا رسا کے کینوس پر قوس وقزح کے رنگ بکھیر دیتی ہے تو وہیں اپنوں کے بچھڑنے کا غم دوسرے لمحے غمگین کر دیتا ہے، کبھی بچپن کی شرارتیں اور کبھی اسی بچپن میں ضد پوری نہ ہونے پر جھوٹی ناراضگیاں،قدم قدم پر بھائی بہنوں سے مصنوعی ناراضگی اور دوستوںسے ہمیشہ کے لئے قطع تعلق کے جھوٹے دعوے لیکن اگلے ہی پل پھر مل بیٹھ کر گپیں ہانکنا اور اکٹھے مل کر کھیلنا کہ جیسے کبھی کوئی ناراضگی تھی ہی نہیں۔ وقت تھا کہ گزرنے کا نام ہی نہیں لیتا تھا ،دوست مل کر کہیں جانے کا پروگرام بناتے ،دور ہونے کا احساس تک نہیں تھا کہ دوست صرف ایک آواز کی دوری پر موجود ہوتے بلکہ خود سے زیادہ آپ کے اور گھر والوں کے متعلق با خبر ہوتے ،آوازدینے سے پہلے آپ کے پاس کھڑے ہوتے۔ گھروں میں ایک دوسرے کا احترام لازم وملزوم،سگے رشتے نہ ہونے کے باوجود اعتبار و اعتماد کے ایسے تعلق کہ سگے رشتوں سے بڑھ کر احساس ہوتا۔زندگی کے اپنے رنگ ڈھنگ تھے،جن میں سجی سنوری زندگی ’’خراماں خراماں ‘‘ چلتی رہتی تھی، کہیں کو ئی تیزی یا جلد بازی دکھائی نہیں دیتی تھی۔ ٹھہراؤ سے بھرپور،خلوص و ایثار،دردمندی رواداری ،وضع داری،شرم و حیا،تابعداری ،مان سمان جیسے خوبصورت و خوب سیرت جذبوں سے بھری زندگی ہوا کرتی تھی۔ پھر وقت نے کروٹ لی اور پرسکون بہتی ہوئی زندگی کی سطح پر ٹیکنالوجی کا ایسا پتھر لگا بلکہ تسلسل کے ساتھ ایسے پتھر لگ رہے ہیں کہ زندگی جوار بھاٹے کی مانند اونچی اونچی لہروں کے دوش پر ہچکولوں کی زد میں گزر رہی ہے۔ ٹیکنالوجی کے ان پتھروں میں ایک انتہائی اہم مگر انتہائی چھوٹا پتھر ،جس نے پوری نوع انسانی کو اپنا اسیر کر رکھا ہے، اگر صرف اسی کے فوائد و نقصانات کا احاطہ کر لیں تو بڑی بات ہے،در حقیقت کوئی بھی ٹیکنالوجی دریافت ہو،اس کا بنیادی مقصد بنی نوع انسان کی زندگی کو بہتر بنانا ہے لیکن بنی آدم میں ایسے منچلے بھی ہیں جو اس ٹیکنالوجی کو اس قدر بھونڈے اور گھٹیا طریقے سے استعمال کرتے ہیں کہ وہ بجائے رحمت کے زحمت نظر آ نے لگتی ہے۔
ٹیکنالوجی کے اس دور میں جب کرہ ارض ایک ’’گلوبل وِلیج‘‘ بن چکا ہے ،معلومات کا حصول انتہائی آسان اور فراواں ہے۔ رابطے خط و کتابت سے نکل کر عام ٹیلی فون کی بدولت ہونے لگے،جس نے ایک طرف فاصلوں کی دوری کو سمیٹا تو دوسری طرف ،خطوط کے پہنچنے ، انتظار کی کربناک ساعتوں کو ختم کر دیا ۔مزید جدت آئی تو موبائل فون عام ہوئے،ان موبائل فونز نے صرف تار سے ہی جان نہیں چھڑائی بلکہ ایس ایم ایس کی سہولت سے بھی متعارف کروا دیا کہ اگر کسی بھی وجہ سے بات نہیں ہو رہی تب فوری پیغام برق رفتاری سے دوسری جگہ پہنچ جاتاہے اور یوں اگر کوئی اہم خبر پہنچانی ہو یا خفیہ طور پر کوئی بات چیت کرنا ہوتی،وہ ہو جاتی ہے لیکن جدت ایسی چوکڑیاں بھرنے پر تلی ہے کہ اس کو کہیں لگام ہی نہیں ،مسلسل چوکڑیاں بھرے جا رہی ہے،ہر گزرتے دن کے ساتھ ایک نئی چیز سامنے آتی ہے۔
ٹیکنالوجی موبائل فون سے ایک قدم بڑھ کر اسمارٹ فون میں کیا بدلی ،ساری دنیا گویا صارف کے ہاتھ میں پہنچ گئی اور یہیں سے حقیقی معنوں میں گلوبل وِلیج کی ابتدا ہوئی۔ اب یہ صارف پر منحصر تھا کہ وہ عالمی گاؤں سے کیا کچھ حاصل کرتا ہے،اس کی اپنی صوابدید تھی،اس کا اپنا مزاج تھا کہ وہ اس سہولت کو کس طرح کے کاموں میں استعمال میں لاتا ہے۔ یہاں بھی بدقسمتی نے ایشیائی صارف کی جان نہیں چھوڑی کہ اس اسمارٹ فون کی بدولت صارفین نے ’’ہر طرح کا‘‘ مواداپنے دوستوں سے شیئر کرنا شروع کر دیا،جس میں بالخصوص قابل اعتراض مواد بھی شامل تھا۔ اس ٹیکنالوجی کا انتہائی غلط استعمال اِن ایپس (apps)کی بدولت زیادہ ممکن ہوا جو نہ صرف بات کرواتی بلکہ اس بات چیت کے ساتھ ساتھ نقل و حرکت بھی دیکھی جا سکتی تھی،سونے پہ سہاگہ ایسی ٹیکنالوجی بھی معرض وجود میں آ گئی جو اس لائیو بات چیت اور نقل و حرکت کو ریکارڈ بھی کر سکتی تھی۔ یہاں پھر وہی بات کہ یہ صارف کا مزاج یا رجحان ہے کہ وہ کیا اور کس نیت سے اس کو ریکارڈ کرتا ہے کہ ہر نئی چیز کا اگر کوئی فائدہ ہے تو نقصان بھی ہے۔ صحافی حضرات کیلئے یہ سہولت ایک نعمت غیر مترقبہ سے کم نہ تھی کہ انہیں ایک ایسی ڈیوائس ملی تھی،جس سے بیک وقت وہ کئی کام لے سکتے تھے اور انہیں بہت سے غیر ضروری لوازمات سے فراغت ملی تھی۔ رپورٹرز بالخصوص اس سہولت سے حقیقی معنوں میں فائدہ اٹھا رہے ہیں کہ ان کی بھیجی ہوئی رپورٹس کے نشر ہونے پر انہیں خصوصی طور پر ٹی وی کے سامنے بیٹھنے کی اب چنداں ضرورت نہیں رہی،وہ کہیں بھی موجود ہوں اپنے اسمارٹ فون اور انٹرنیٹ کی بدولت اپنی بھیجی ہوئی رپورٹ کو بآسانی ریکارڈ کرنے کے قابل ہو گئے ہیں۔ تا ہم اس سہولت کے دوسرے منفی پہلوؤں میں سب سے اہم، وقت کی شدید قلت ہے کہ اسمارٹ فون کے صارفین کو چند ایسی سہولیات میسر ہیں کہ وہ بیک وقت گفتگو کیلئے،تفریح طبع کیلئے ایسے گروپس بنا لیتے ہیں جہاں اراکین کی تعداد پر کوئی خاص پابندی نہیں بلکہ ان گروپس میں سیکڑوں کی تعداد میں رکن بنائے جا سکتے ہیں۔ اب ہوتا یہ ہے کہ کوئی ایک شخص ایسا گروپ تشکیل دیتا ہے(جس کے پس منظر میں کئی وجوہ ہوتی ہیں) اور پھر اس گروپ میں اپنے دوست احباب،یا سیاسی وابستگیوں کی بنیاد پر رکن بنا لیتا ہے۔ ایسے کسی بھی گروپ میں مروتاً،اخلاقاً لوگ شامل تو ہو جاتے ہیں اور ابتداء میں یہ تصور بڑا مسحور کن بھی ہوتا ہے کہ بندہ کسی گروپ کا رکن بن گیا ہے مگر یہ تفاخر اور خوشی بمشکل چند دنوں کی ہوتی ہے کہ جب آپ کا موبائل فون بلا تکان ٹن ٹن کرنا شروع کر دیتا ہے۔ کسی ایک رکن کا کوئی میسج آیا نہیں ،ساتھ ہی جواب در جواب کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوجاتاہے اور آپ کا وقت پھر آپ کانہیں بلکہ ان پیغامات کا ہو جاتاہے۔ بالخصوص سیاسی گروپس میں تو یہ طوفان بدتمیزی کسی حد میں نہیں رہتا اور بات ایک چھوٹے سے پیغام سے شروع ہو کر ،گلی میں گندے پوتڑے دھونے تک چلی جاتی ہے،بالعموم دو3یا 4 اراکین یہ سلسلہ شروع کرتے ہیں اور اس گروپ کے اندر بھی مزید گروپنگ اور کمک پہنچانے کا کام پوری شدومد سے جاری ہو جاتا ہے جبکہ باقی اراکین فقط مروتاً یا اخلاقاً اس کو برداشت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ یہاں گروپ ایڈمن کا کردار بھی عجیب مخمصے کا شکار ہو جاتا ہے کہ کس کو روکے اور کس کو ٹوکے،گروپ کے تمام اراکین جہاں ایک طرف اس زحمت کو برداشت کر رہے ہوتے ہیں دوسری طرف ان کا فون بتدریج میموری فل ہونے کی دہائی دے رہا ہوتا ہے۔ بسا اوقات یوں بھی ہوتاہے کہ صارف اس قدر زیادہ ڈیٹا کو بروقت تلف کرنے میں ناکام رہتا ہے اور نتیجتاً اپنے کونٹیکٹس بھی گنوا بیٹھتاہے۔سوال صرف یہ ہے کہ کیا اس طرح کے گروپس بنانا بہت ضروری ہے؟اگر اتنا ہی ضروری ہے تو پھر ایڈمن کو اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے ایسے اراکین جو نہ متحرک ہوں اور نہ فعال ایک مدت کے بعد گروپ سے نکال دینے چاہئیں تا کہ صرف وہ اراکین جو متحرک و فعال ہیں،گروپ کا حصہ رہیں کہ کئی ایسی ڈسکشن جو کسی دوسرے کے لئے غیر ضروری ہیں،اسمارٹ فون کی رحمت کو رحمت رہنے دے نہ کہ زحمت میں بدل دے۔