سیشلز میں ہند کی ہار اور انڈونیشیا میں کامیابی
ڈاکٹر عبداللہ المدنی ۔ الاقتصادیہ
ہندوستان ہمیشہ اس امر پر زور دیتا رہا ہے کہ تجارتی سمندری راہداریوں میں جہاز رانی کی آزادی اور امن و سلامتی کو یقینی بنانے کیلئے مشترکہ نظام کا قیام ضروری ہے اور یہ ہدف مکالمے کے ذریعے ہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ ہندوستان، ایشیا ،یورپی ممالک اور امریکہ کو بحر ہند اور بحر الکاہل کے حوالے سے جوڑنے کیلئے کوشاں ہے۔ہندوستان اس حوالے سے اپنے جغرافیائی محل وقوع، علاقائی وزن اور بڑھتے ہوئے اقتصادی اثر و نفوذ سے بھی فائدہ اٹھا رہا ہے۔ ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی نے سنگاپور میں علاقائی امن فورم کے سامنے واضح کیا کہ پوری دنیا ہندوستان کے بہتر مستقبل کے حوالے سے امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہے۔ پوری دنیا سمجھ رہی ہے کہ اگر ہندوستان اور چین نے بحر ہند اور بحر الکاہل کو آزاد و کھلاعلاقہ بنادیا تو اس سے ترقی اور خوشحالی کے نئے باب کھلیں گے اور یہ ہدف مشترکہ جدوجہد ہی کے ذریعے حاصل کیا جاسکے گا۔
ہندوستان اس سلسلے میں یہ مان کر آگے بڑھ رہا ہے کہ ہندوستان کی خارجہ تجارت کا 90فیصد سامان بحر ہند سے گزرتا ہے۔ علاوہ ازیں تیل اور گیس کی بیشتر درآمدات کا راستہ بھی یہی ہے۔ نریندر مودی نے مئی میں چین کا دورہ کرکے اپنے چینی ہم منصب سے اس موضوع پر بات چیت کی۔ ایسا لگتا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان اس حوالے سے زبردست مسابقت پائی جاتی ہے۔ دونوں کے علاقائی اور بین الاقوامی ایجنڈے مختلف ہیں۔ اس صورتحال نے فریقین کے درمیان سمجھوتے کی راہ مسدود کردی ہے۔
چین، ہندوستان کے برخلاف کئی ایشیائی ممالک انڈونیشیا، ملائیشیا ، ویتنام، جنوبی کوریا ، جاپان اور تائیوان کےساتھ اختلافات اور تنازعات کا شکار ہے۔ چھوٹے چھوٹے جزیروں کی بالا دستی، ماہی گیری کے مراکز اور جنوبی بحر چین کی اسٹراٹیجک راہداریوں پر جھگڑے ہیں۔ چین ان مقامات کو اپنے اسٹراٹیجک اثر و نفوذ کا حصہ سمجھتا ہے۔ ایسے عالم میں ہندوستانی تجاویز چین کیلئے قابل قبول نہیں ہوسکتیں۔ دوسری جانب چین نے کھلم کھلا بحر الہند میں اپنا اثر و نفوذ بڑھانے کیلئے اقدامات کئے ہیں۔ اس نے بحر ہند پر واقع مختلف ممالک میں فوجی اڈے قائم کردیئے ہیں۔ برما، سری لنکا اور مالدیپ سے لیکر جبوتی او ر سیشلز تک اپنی عسکری طاقت کی بساط بچھا دی ہے۔
سیشلز کا تذکرہ آتا ہے تو یہ کہنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان اس کے ایک جزیرے میں فوجی اڈہ قائم کرتے کرتے رہ گیا۔ طے ہوا تھا کہ ہندوستان وہاں جملہ سہولتوں سے آراستہ فوجی اڈہ قائم کریگا جسے فریقین استعمال کریں گے۔ دیگر ایسے فریق بھی اسے استعمال کرسکیں گے جو دونوں ملکوں میں سے ایک کے دشمن نہ ہوں۔ مودی نے 2015ءکے دوران سیشلز کے دورے کے موقع پر معاملات طے کرلئے تھے تاہم ارکان پارلیمنٹ کی ہنگامہ آرائیوں اور سیاسی پیچیدگیوں کے باعث معاہدے پر عمل درآمدنہیں ہوسکا۔ اس وقت یہ بات کہی گئی تھی کہ چین نے سیشلز کے ارکان پارلیمنٹ کو معاہدے کے خلاف بھڑکانے میں درپردہ کردارادا کیاتھا اور وہاں کے عوام کو ہندوستان کے فوجی اڈے کے خلاف ورغلا دیا تھا۔
اس طرح سیشلز میں ہندوستان اپنے قدم جماتے جماتے رہ گیا۔ علاوہ ازیں ہندوستان کو کئی عشروں سے اپنے اسٹراٹیجک حلیف مالدیپ میں بھی اسی قسم کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔ وہاںبھی چینیوں نے مالدیپ کے لوگوں کو زیادہ ترغیبات دیں اور مالدیپ ہندوستان کے ہاتھوں سے نکل گیا۔ ماریشس اور سری لنکا بھی خارجی طاقتوں کی مداخلتوں سے دوچار ہوتے رہتے ہیں۔
ہندوستان نے سیشلز اور مالدیپ میں اپنے نقصان کا تدارک سومیترا جزیرے کے شمال میں ”سیبنگ“ بندرگاہ پر فوجی اڈوں کی تعمیر اور انہیں جدید خطوط پر استوار کرنے کا انڈونیشیا سے حق حاصل کرلیا۔یہ دنیا کے اہم ترین تجارتی راستوں میں سے ایک ہے۔ مصروف ترین بحری راہداری مانا جاتا ہے۔یہ ملکہ آبنائے ہے جہاں سے سالانہ ایک لاکھ سے زائد جہاز گزرتے ہیں۔ اسے مودی کی بڑی سفارتی فتح مانا جارہا ہے۔
انڈونیشیا میں ہندوستان کو قدم جمانے کا موقع متعدد وجوہ کی بناءپر ملا۔ ایک تو یہ کہ دونوں ملک غیر جانبدار تحریک کے بانی ممالک ہیں۔ دونوں کے تعلقات قدیم ہیں۔ علاوہ ازیں چین کی دخل اندازیوںکے حوالے سے دونوں کا موقف ایک جیسا ہے جبکہ چین کی شاہراہ ریشم کی بابت بھی دونوں ملکوں کا موقف ایک ہے۔ علاوہ ازیں ہندوستان اور چین جمہوریت اور سیکولر ازم کے حوالے سے مشترکہ حکمت عملی پر قائم ہیں۔ اسی کے ساتھ ہندوستان کو سلطنت عمان کے ساتھ بھی راہ و رسم بڑھانے کا زریں موقع ملا ہے۔ عمان نے” الدقم “اسٹراٹیجک بندرگاہ پر ہندوستان کے عسکری جہازوں کو لنگر انداز ہونے کی سہولتیں دیدی ہیں۔ کہہ سکتے ہیں کہ ہند کو چین کی توسیع پسندانہ پالیسی کے باعث سیشلز میں جو خسارہ ہوا تھا اس نے اسکا تدارک انڈونیشیا اور سلطنت عمان سے نئی سہولتیں حاصل کرکے کرلیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭