Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا سعودی عرب میں دانشور اور فلسفی بھی رہتے ہیں؟

صفوق الشمری ۔ الوطن
میرے مطالعے کے مطابق سعودی عرب میں ایسا کوئی شخص نہیں رہتا جسے ہم فلسفی کہہ سکیں۔ یہ کوئی خامی کی بات نہیں۔ سچ یہ ہے کہ عظیم فلسفی نادر سکہ ہوتے ہیں۔ اسکا مطلب یہ نہیں کہ ہم عظیم دانشوروں کی جستجو بند کردیں۔ بلاشبہ سعودی عرب جدید فکر و ذہن کے حامل افراد سے بھرا ہوا ہے لیکن ان میں کوئی دانشور مجھے نظر نہیںآتا۔
فرانس کے معروف فلسفی ریناڈیکارڈ کا مشہور مقولہ ہے ”میں سوچتا ہوں اسکا مطلب یہ ہے کہ میں موجود ہوں“۔
جارج بارکلے کا مشہور مقولہ ہے کہ ”اپنا وجود ثابت کرنے کےلئے آپ کو موثر ہونا ضروری ہے“۔
دوسرے الفاظ میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ اگر جنگل میں کوئی درخت گر جائے اور اسکے گرنے کی آواز سننے والا اس کے اطراف کوئی نہ ہو تو کیا اس کے گرنے کی آواز کوئی صدائے بازگشت پیدا کرے گی؟
کسی بھی قوم کو کھانے پینے کی اشیاءکی طرح دانشوروں اور فلسفیوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ علمی، اقتصادی اور سیاسی ضرورت ہے۔ امت کو حال و مستقبل بنانے، سنوارنے اور اپنے آپ کو عروج کی منزلوں سے روشناس کرانے کیلئے دانشوروں اور فلسفیوں کی ضرورت اتنی ہی پڑتی ہے جتنی کہ کھانے پینے کی ضرورت لاحق ہوتی ہے۔
ایک کتاب کا نام ہے ”زندگی گزارنے کیلئے تعلیم ناگزیر ہے“۔ اس کے 2مصنف ہیں۔ انکا کہناہے کہ جو معاشرے خود کو منظم کرنے کے خواہشمند ہوں وہ یہ کام تعلیم کے ذریعے حاصل کرسکتے ہیں۔ جو قوم اعلیٰ آمدنی کی متمنی ہو،جو قوم اپنے ہر فرد کو برسرروزگار دیکھنا چاہتی ہو اُسے علوم و معارف اور ہنر حاصل کرنے پر زور دینا ہوگا۔ جس قوم میں دانشوروں کی تعداد زیادہ ہوگی اس کا اثر و نفوذ، اسکی قوت ، اسکا سماجی، اقتصادی اور سیاسی معیار بلند سے بلند ہوگا۔
سوال یہ ہے کہ سعودی عرب کو فی الوقت دانشوروں اور فلسفیوں کی ضرورت کیونکر ہے؟اس سوال کا جواب یہ ہے کہ سعودی عرب ان دنوں اپنی تاریخ کے اہم موڑ سے گزر رہا ہے۔ بلا مبالغہ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ فی الوقت نیا سعودی عرب تشکیل پا رہا ہے۔ پوری دنیا کی یہ ریت رہی ہے کہ نئے مرحلے کو منطقی انجام تک پہنچانے یا انقلابی عمل کو مکمل کرنے کیلئے ہر قوم دانشوروں کی دست نگر رہی ہے۔ قدیم یونانیو ںکے عہد سے لیکر اب تک کی تاریخ یہی ہے۔
اگر ہم مشرق کا رخ کریں تو چین کی عظمت کنفیوشس کے بغیرادھوری لگتی ہے۔ چین کے اس عظیم فلسفی نے اپنے وطن کو اتنا کچھ دیا کہ اس کی بدولت اسے تقدس کا درجہ حاصل ہوگیا۔ اسی طرح اگر ہم اسلامی تمدن کے عروج کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں اس عظمت کی تاریخ بنانے سنوارنے میں ابن سینا، ابن رشد اور ابن خلدون جیسے دانشور اور عظیم فلسفی صف بستہ نظر آتے ہیں۔ اگر ہم مغربی دنیا میں فرانسیسی انقلاب کا مطالعہ کریں جس نے موجودہ مغربی دنیا کی نشاةِنو کا کام کیا تو ہمیں فولٹر جان جاکروسو جیسے فلسفیوں کے کردار کو سلام ِ تحسین پیش کرنا ہوگا۔ عصر حاضر میں دائیں اور بائیں بازو کے افکار سے قطع نظر موجودہ امریکہ کی کامیابی میں ہینری کسنجر ، معروف فلسفی نوم چونسکی جیسی شخصیات کا کردار تسلیم کرنا پڑتا ہے۔
میں اپنے قارئین کو دانشوروں اور فلسفیوں کی گتھیوں میں الجھانا نہیں چاہتا لیکن سادہ زبان میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ فلسفی کا رتبہ دانشور سے اعلیٰ ہوتا ہے جبکہ دانشور جدید علوم و فنون کی ماہر شخصیات سے برتر ہوتا ہے۔سعودی معاشرے میں کالم نگار اور تعلیم یافتہ افراد کثیر تعداد میں ہیں۔ افسوس کے ساتھ ماننا پڑتا ہے کہ ہمارے یہاں کوئی دانشور اور کوئی فلسفی نظر نہیں آتا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: