سماجی و اقتصادی اصلاحات سعودی معیشت کیلئے سود مند
عبدالرحمن الراشد ۔ الشرق الاوسط
15لاکھ ڈرائیوروں کا دعویٰ بعید از حقیقت نہیں۔ دیگر گھریلو ملازمین کو شامل کرلیا جائے تو یہ تعداد 15لاکھ سے تجاوز کر جائیگی۔ زیادہ تر سعودی خاندانوں کے ملازم ہیں۔ ان پر خرچ ہونے والی تنخواہیں سعودی خاندانوں کی آمدنی کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہیں۔
ڈرائیونگ کی اجازت کا اعلان ہوتے ہی ایک لاکھ20ہزار خواتین نے سعودی ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرنے کی درخواستیں دیدیں۔ اس سے ظاہر ہوگیا کہ خواتین کی ڈرائیونگ پر عائد پابندی اٹھانے کا فیصلہ زبردست عوامی پذیرائی کا باعث بنا۔10شوال 1439ھ سے قبل ہمیں اس کا بھروسہ نہیں تھا کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگ اس فیصلے کی تائید کریں گے۔ وجہ یہ تھی کہ خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دینے کا مسئلہ کافی عرصے تک دینی اور سماجی گتھی بنا ہوا تھا۔
سعودی خاندان کے سماجی و اقتصادی حالات کی اصلاح سے ملکی اقتصاد کو فائدہ پہنچے گا۔ ڈرائیونگ پر یا ڈرائیونگ کی وجہ سے ہونے والا مالی ضیاع غیر معمولی ہے۔تقریبات اور تفریحات کے پروگرام پر پابندی اور سینما گھروں کے فقدان کی وجہ سے ہزاروں سعودی خاندان سیر و تفریح کی تلاش میں ملک سے باہر سفر کرتے رہتے تھے۔ سرکاری قوانین بھی خواتین کے روزگار کی راہ میں حائل تھے۔ ہزاروں قابل خواتین بغیر روزگار کے زندگی گزار رہی تھیں۔ انکے پاس آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ یہ سب کچھ اب تدریجی طور پر تبدیل ہوگا۔ 2برس قبل چند دکانوں پر خواتین سامان فروخت کرتی نظرآتی تھیں۔ بحر احمر مال میں کام کرنے والی خواتین کو انگلیوں پر شمار کیا جاسکتا تھا۔ اب وہاں خواتین کی اکثریت ہے اور مرد اقلیت میں تبدیل ہوگئے ہیں۔ غالباً اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ خواتین کی تقرری غیر ملکی کارکنان کی جگہ کی گئی ہے۔
امسال پولیس ، محکمہ ٹریفک، انشورنس کمپنیوں، ٹریفک حادثات کے ادارے اور محکمہ پاسپورٹ جیسے سرکاری اداروں میں خواتین کو روزگار کے بڑے مواقع فراہم کئے گئے۔ علاوہ ازیں پرائیویٹ ٹیکسی سروس میں بھی سعودی خواتین آنے لگی ہیں۔ گزشتہ مہینوں کے دوران پہلی بار ہوائی اڈوں، ہوٹلوں اور ریستورانوں میں بھی سعودی خواتین کام کرتی دیکھی گئی ہیں۔ تعداد ابھی کم ہے ۔ دوسری جانب سماجی ترقیاتی بینک نے خواتین کو اوبر اور کریم کمپنیوں کے تحت ٹیکسیاں چلانے کیلئے رعایتی قرضے جاری کرنے کی پیشکش کی ہے۔ گاڑیوں کے ڈیلر بھی اپنے شورومز میں خواتین کو تعینات کرنے کی پیشکش کررہے ہیں۔
حکومت نے سعودی عرب کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا غیر معمولی جرا¿ت مندانہ اقدام کرکے سماجی ممنوعات کی دیوار توڑی۔ اس کے فوری اور حیرت ناک نتائج سامنے آئے۔ اس اقدام نے معاشرے کو تبدیلی کی شاہراہ پر ڈالدیا۔ اب تک ہم نے جو کچھ دیکھا وہ یہ ہے کہ سعودی معاشرے کی جانب سے اس اقدام پر مثبت ردعمل آیا ہے۔ یقینا مقامی حکام نے منفی ردعمل کے امکان کو مد نظر رکھ کر بہت ساری احتیاطی تدابیر بھی کی ہونگی۔ملک کے طول و عرض میں سرکاری وردی میں ملبوس ہزاروں سپاہی اور سادہ لباس میں سیکیورٹی اہلکار بھی مقرر کئے گئے ہونگے تاکہ قانون پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جاسکے۔ تبدیلی چین و سکون کے ساتھ گزر گئی۔ اس سے قبل شاہ سلمان کی ہدایت پر حکومت نے چھیڑ خانی کے انسداد کا قانون بنایا ۔ یہ سب کیلئے تھا ۔خصوصاً خواتین کیلئے۔ پولیس کے ایک عہدیدار نے بہت اچھی بات بتائی کہ ہم چھیڑ خانی کی کسی بھی واردات پر آنکھیں گاڑھے ہوئے تھے۔ اگر کوئی خلاف ورزی کرتا تو اسے فوری طور پر سزا دیکر نشان عبرت بنادیا جاتا تاہم کوئی بھی واقعہ کہیں سے ریکارڈ پر نہیں آیا۔
چھٹے عشرے کے اواخر میں تعلیم ِ نسواں کا سلسلہ شروع کیا گیا تو بعض لوگ اس پر پابندی عائد کرانے کیلئے شاہ فیصل رحمتہ اللہ علیہ کے پاس پہنچے۔ انہوں نے جو جواب دیا تھا اس کی صدائے بازگشت آج بھی سنی جارہی ہے۔ انہوںنے کہا تھا کہ ”آپ لوگ اپنی بیٹیوں کو تعلیم دلانے پر مجبورنہیں البتہ ہم گرلز اسکول ضرور کھولیں گے“۔ چند برس بعد سب لوگوں نے اپنی بچیوں کو اسکول بھیجنا شروع کردیا تھا۔
سعودی عرب میں 8ویں عشرے کے شروع میں دینی بیداری کا عَلم بلند ہونے پر مثبت سماجی تبدیلی کا عمل معطل ہوگیا تھا۔ کسی نے بھی انتہا پسند اور قدامت پسند تنظیموں کو چیلنج نہیں کیا۔ اب جاکر ایک بار پھر سماجی اصلاح کی ٹرین نے سفر شرو ع کیا ہے۔ اسکی بدولت معاشرے میں خواتین کو درپیش مشکلات کا سلسلہ ختم ہوگا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭