Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کراچی سونے کی کان لیکن رکھوالا کون؟

***صلاح الدین حیدر***
مہاجر صوبے کی آواز بلند سے بلند ہوتی جارہی ہے لیکن تحریک انصاف کے چیئرمین نے اردو بولنے والوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے اُلٹا نمک پاشی کردی اور اب شاید انہیں 25 جولائی کے انتخابات میں پشیمانی کا سامنا کرنا پڑے۔ یہ صحیح ہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں آبادی کا تناسب پچھلے کئی برسوں سے یکسر تبدیل ہوچکا ہے، کئی لوگ تو اسے دنیا میں پختونوں کا سب سے بڑا شہر گردانتے ہیں، لیکن شواہد اس دلیل کا ساتھ نہیں دیتے۔حالیہ مردم شماری میں کراچی کے ساتھ کھلی ناانصافی ہوئی۔نادرا (جو شہریوں کے بابت دوسروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ اور مستند معلومات رکھتا ہے) نے آج سے2 سال پہلے شہر کی آبادی 2کروڑ 20 لاکھ بتائی تھی۔2 سال بعد مردم شماری کے ذریعے اسے ایک کروڑ 49 لاکھ کردیا گیا۔ یہ اگر ناانصافی نہیں تو اور کیا ہے۔ جان بوجھ کر کراچی کے رہائشیوں میں احساس محرومی بڑھایا جارہا ہے، لگتا ہے کسی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ایسا کیا جارہا ہے۔ 
کسی کو اس شہر سے کیا بیر ہے، اللہ ہی بہتر جانتا ہے لیکن اردو بولنے والوں کے ساتھ پیپلز پارٹی کے سالہ دور حکومت میں کراچی کے ساتھ ناانصافی بڑھتی گئی تاکہ ایم کیو ایم کے بجائے پی پی پی یہاں سے سیاسی فائدہ اٹھاسکے۔ایسا کرنے والے بھول گئے کہ کراچی قومی بجٹ کا 67 فیصد اور سندھ صوبے کے بجٹ میں 97 فیصد رقم فراہم کرتا ہے، پھر بھی چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے مطابق یہاں صاف پانی تک لوگوں کو میسر نہیں، اسکول اور نئے ہاسپٹل نہیں کھولے گئے بلکہ جو تھوڑے بہت تھے انہیں بھی تباہ و برباد کردیاگیا۔ 
مصطفی کمال 2005 سے 2010 تک کراچی کے میئر تھے۔اُ ن کے زمانے میں شہر کی حالت تبدیل ہوئی، نئی سڑکیں، فلائی اوورز، انڈرپاسز، لمبی چوڑی لیاری ایکسپریس وے بنی۔ بھٹو کے بعد اتنی ترقی کراچی میں دیکھنے میں آئی تھی پر افسوس کہ اس کے بعد کایا پلٹ گئی، پیپلزپارٹی کی حکومت نے اس سونے کی چڑیا سے بھرپور فائدہ اٹھایا لیکن اس کی رکھوالی کی ذمے داری قبول نہیں کی۔ آج تک اس شہر کا کوئی پرسان حال نہیں۔ نتیجہ صاف ہے، سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں، انڈرپاسز اور فلائی اوورز جو نئے بنے ان کی مضبوطی کے بارے میں کیا کہا جائے، رشوت ستانی نے عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا، یہ ایک بات کہی جاسکتی ہے۔
ایم کیو ایم کی ٹوٹ پھوٹ کے بعد شہر کی حالت زار پر رونا آتا ہے۔ پی ٹی آئی، جماعت اسلامی، پیپلز پارٹی، سب ہی اس کے حصے اکٹھے کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ کراچی کسی کی میراث نہیں۔ اس سے کوئی بھی اختلاف نہیں کرتا، لیکن کوئی تو اس کی ترقی کی ذمے داری لے۔ سابق وزیراعلیٰ روز و شب شہر کے دورے کرتے نظر آتے تھے، لیکن اصل کام کیا ہوا، اس پر صرف کفِ افسوس مَلنا ہی بہتر ہے۔ عمران خان اگر یہاں سے قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں چاہتے ہیں تو ضرورجیتیں۔ انہوں نے شہر کا 3 روزہ طوفانی دورہ کیا۔ شام 4 بجے سے علی الصباح 3 بجے تک 15،20جلسے جلوس کر ڈالے، دھواں دھار تقاریر، الطاف حسین اورایم کیوایم کو برا بھلا کہنے میں کوئی حرج نہیں، سیاست میں سب جائز ہے، لیکن وقت رخصت ایئرپورٹ پر جب ایک رپورٹر نے اُن سے کراچی کو صوبہ بنانے کے بارے میں پوچھا تو صاف مُکر گئے۔ کراچی کو صوبہ نہیں میٹرو پولیٹن شہر بننا چاہیے، یہاں لوکل گورنمنٹ کا نظام صحیح کرنا پڑے گاتاکہ نچلی سطح تک بلاروک ٹوک ترقی ہوسکے، بات تو صحیح ہے، لیکن صوبہ اگر جنوبی پنجاب میں بن سکتا ہے تو سندھ میں کیوں نہیں؟
ان کے بیان سے کراچی والوں پر منوں برف پڑ گئی۔ انہیں عمران سے ایسی امید نہ تھی۔ کپتان نے کراچی کے حلقے NA-243 سے لڑنے کا فیصلہ کیا ہے جو گلشن اقبال اور ڈسٹرکٹ ایسٹ کی بڑی آبادی والاعلاقہ ہے۔ یہاںسے پیپلز پارٹی کی سابق ڈپٹی اسپیکر شہلا رضا، ایم کیو ایم کے علی رضا عابدی، پاک سرزمین پارٹی کے مزمل قریشی اور متحدہ مجلس عمل (MMA) کے علامہ اسامہ رازق سمیت کئی اور امیدوار ہیں، عمران کے لیے مقابلہ سخت ہے، لیکن الیکشن پھر الیکشن ہے۔ کوئی بھی جیت سکتا ہے۔سوال صرف ایک ہے۔ کراچی سونے کی کان تو نہیں لیکن رکھوالا کون ہے؟
 

شیئر: