انتخابات کے بعد حالات 70ءسے بھی بدتر ہونگے؟
اسلام آباد.. پاکستان میں عام انتخابات میں چند دن رہ گئے تاہم روایتی انتخابی گہما گمی نظر نہیں آرہی۔ مستونگ،پشاور اور بنوں میں دہشت گرد حملوں کے بعد اگرچہ سیاسی جماعتیں انتخابی مہم جاری رکھے ہوئے ہیں تاہم عوام کی بڑی تعداد جلسے جلسوں سے دور ہے۔ بیشتر جماعتوں نے انخابی مہم ٹھیکے پر دی ہوئی ہے۔ انتخابی معرکہ سوشل میڈیا پرلڑا جا رہا ہے۔ چند ماہ قبل انتخابات کے حوالے سے جو سروے سامنے آئے ۔ اس میں ن لیگ مقبولیت میں آگے تھی۔ اس کے بعد تحریک انصاف کا نمبر تھا۔ الیکشن شیڈول کا اعلان ہوتے ہی سیاست نے نیا رخ اختیار کیا ۔تحریک انصاف میں شامل ہونے والوں کی لائن لگ گئی ۔پیپلزپارٹی پنجاب میں جنوبی پنجاب پر انحصار کئے ہوئے تھی لیکن یہا ںبیشتر الیکٹیبلز تحریک انصاف کی جھولی میں ڈال دئیے گئے۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اس مرتبہ انتخابات میں کسی بھی سیاسی جماعت کو اکثریت نہیں ملے گی۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے حالیہ انٹرویو میں تسلیم کیا ہے کہ انتخابات مشکل ہیں اگر معلق پارلیمنٹ آئی تو یہ بدقسمتی ہوگی ۔ دیکھا جائے تو انتخابات میں کامیابی کے بعد حکومت کرنا آسان کام نہیں ہوگا۔نئی حکومت کو مہنگائی اور مشکل ترین اقتصادی صورتحال کا سامنا ہو گا۔ آئی ایم ایف نے بیل آوٹ پیکج کے لئے کڑی شرائط عائد کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ لگ یہی رہا ہے کہ انتخابات کے بعد حالات 1970ءسے بھی بدتر ہوںگے۔ کسی جماعت کو میں واضح اکثریت نہیں ملی تو آزاد امیدوار کنگ میکر ہونگے ۔خرید و فروخت کی منڈی لگے گی ۔ ظاہر ہے کمزور حکومت پاکستان کے مسائل حل کرنے کے قابل نہیں ہو گی۔ اس وقت ڈالر130پر پہنچ چکا ، تجارتی خسارہ18ارب ڈالر ہے ۔ نئی حکومت مہنگائی کو کنٹرول کرنے اور عوام کے مطالبات کس طرح حل کرے گی۔ ایسے حالات میں حکومت اپنے اراکین اسمبلی کو بھی دیکھے گا۔ اپوزیشن الگ ٹانگیں کھینچنے میں مصروف ہو گی۔