Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دہشتگردی کو دین سے منسوب کرنا ظلم

رضوان السید ۔ الشرق الاوسط
مراکش کے معروف عظیم سیاستدان محمد بنعیسیٰ 40برس سے ”اصیلہ فورم“ منعقد کررہے ہیں۔ انہوں نے 40ویں برس کی ایک مجلس ”دہشتگردی کے سرپرست مذہبی افکار اور ان سے نمٹنے کے طور طریقے“ کے زیر عنوان منعقد کی۔
اسکالرز اور فورم کے حاضرین نے اس کا برا منایا۔ بعض لوگوں نے کہاکہ مذہبی افکار کی جانب سے دہشتگردی کی سرپرستی کی تعبیر کااستعمال نامناسب ہے۔ دیگر نے کہاکہ دہشتگردی کو اسلام سے مربوط کرنا اچھی بات نہیں۔ یہ تو مشرق و مغرب میں اسلام کے خلاف جاری مہم کی تائید و حمایت کے مترادف ہے۔ بعض نے کہا کہ یہ عنوان تو روسی امریکی سربراہوں کی حالیہ ملاقات کے بعد ہونے والی پریس کانفرنس کا بیانیہ لگتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ دہشتگردی کواسلام سے مربوط کرنا حق کیساتھ ناانصافی بھی ہے او رمبالغہ آمیزی بھی۔ درست بات یہ ہے کہ بعض مسلمان شدت پسندی اور دہشتگردی میں مصروف ہیں۔ تقریباً دو عشروں سے یہ سب کچھ ہورہا ہے ۔ مسلم ممالک اور دنیا کے دیگر علاقوں میں دہشتگردی اور شدت پسندی کے واقعات روز افزوں ہیں۔ خصوصاً یورپی ممالک بھی اس کی زد میں ہیں۔ یہ لوگ ہیبت ناک مجرمانہ سرگرمیوں کو دین اسلا م سے مربوط کردیتے ہیں۔
اگر خود کش حملہ آور خاموشی اختیار کرلیں ا و رمذکورہ سرگرمیوں پر بحث مباحثہ کی نوعیت پر گفت و شنید ممکن ہو تو اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ دہشتگردی کرنے والے سب کے سب یا تو مسلم نوجوان ہیں یا وہ مسلم خاندانوں کی پیداوار ہیں۔ اسلام سے اسکی نسبت غلط بھی ہے او رظلم بھی ہے۔ البتہ جن لوگوں کے پیارے دہشتگردانہ حملوں میں ہلاک ہوجاتے ہیں وہ مصیبت کے مارے اسلام کو اس کا ذمہ دار ٹھہرا دیتے ہیں۔ یہ غصے اور دکھ کی کیفیت کا اظہار ہے۔ اس حوالے سے انہیں کسی حد تک معذور سمجھا جاسکتا ہے۔
جہاںتک اس دعوے کا تعلق ہے کہ دینی تعلیمات شدت پسندی اور انتہا پسندی کی سرپرستی کرتی ہیں تو اسلامی فکر کی حد تک یہ دعویٰ سو فیصد غلط ہے۔ البتہ اس حد تک یہ دعویٰ بالکل درست ہے کہ بعض انتہا پسند مسلمان مسلم معاشروں اور مسلم ممالک کے خلاف کفرکے فتوے جاری کرتے رہتے ہیں اور یہ لوگ مسلم ممالک اور معاشروں کے لوگوں کا خون بہانے ، انکی دولت لوٹنے اور ان کے یہاں وحشیانہ تخریب کاری کو جائز سمجھتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دین اسلام نے جان، مال اور آبرو کا تقدس مقرر کیا ہے البتہ یہ انتہا پسند عناصر دین اسلام کی ان تعلیمات کو پس پشت ڈال کر اپنی دہشتگردی کو اسلام سے منسوب کردیتے ہیں۔
ایک بار پھر یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ گزشتہ عشروں کے دوران دین کے حوالے سے شدت پسندی ، انتہا پسندی اور دہشتگردی کی تحریک بڑے پیمانے پر ابھر کر سامنے آئی ہے۔ ہزاروں نوجوانوں نے اسے اپنایا ہے اور اسی بنیاد پر انہوں نے اقدامات کئے اور اب بھی اسی اساس پر وہ سرگرم عمل ہیں۔ 
دین کو اقتدار کی کشمکش کا حصہ بنانے کیلئے ریاستی امو رمیں شامل کرنا دین او رریاست دونوں کیلئے نقصان دہ ثابت ہورہا ہے۔ تجربات نے یہ بات ثابت کردی ہے۔ تجربات سے یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی ہے کہ دین کی سیاسی تشریح اسلا م کے مزاج کے منافی ہے۔ مسلمان اس کا تجربہ تاریخ کے مختلف ادوار میں کرچکے ہیں۔ اسکا مطلب یہ نہیں کہ اسلام عبادت کا مزاج رکھنے والے سیاسی امو رکی بابت کوئی رہنمائی نہیں دیتا۔ مصلحت کا تقاضا ہے کہ فی الوقت دین کو اقتدار کے حصول کے لئے استعمال نہ کیا جائے۔ یہ بڑی لمبی چوڑی بحث ہے۔ گفتگو کا حاصل اس حوالے سے یہ ہے کہ اقتدار کی کرسی حاصل کرنے کیلئے دین کے نام سے انتہا پسندی کا انجام تشدد کی صورت میں نمودار ہورہا ہے لہذا اگر ہم اپنے اس دعوے سے دستبردار ہوجائیں کہ اسلام دین بھی ہے او رریاست بھی تو اس سے دین کو فائدہ پہنچے گا۔ اسلام عقائد ، اخلاق ، احکام اور معاملات کانام ہے۔ اسلام کو اپنے قیام کے لئے اقتدار کی ضرورت نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ دین موجود ہے ، مضبوط ہے اور اسکے پیرو کار اس سے پوری قوت سے جڑے ہوئے ہیں۔ سیاسی نظام ہو نہ ہو ہر حال میں اسلام سے وابستگی مسلم ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 

شیئر: