سماجی اقدار، سماجی آداب کی پاسبانی
حسن علی العمری ۔ مکہ
قومی نظام بازاروں ، عوامی پارکوں ، تفریح گاہوں اور شاہراہوں پر افراد اور اجتماعات کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ سماجی آداب کے تحفظ کیلئے قوانین و ضوابط موجود ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ قوانین کے پہلو بہ پہلو معاشرے کے افراد کے ذہنوں میں سماجی اقتدار اور رہنما اصول راسخ نہ ہوں۔ حق اور سچ یہی ہے کہ قوانین کے پہلو بہ پہلو سماجی اقدار بھی سماجی آداب کی پاسبان ہوتی ہیں۔جب بھی کوئی شخص اخلاقیات اور اقدار سے تجاوز کرتا ہے ، جب بھی کوئی انسان دینی تعلیمات اور مسلمہ اصولوں پر حرف زنی کرتا ہے، اسے معاشرے کے بعض امیر لوگ ایسا کرنے سے روکتے ہیں۔ قومی نظام کی غرض و غایت یہی ہوتی ہے کہ پبلک مقامات پر افراد اور گروپوں کی سرگرمیوں کو تحفظ حاصل ہو۔ دراصل جب انسان اپنے گھر یا اپنے خاندان سے دور ہوتا ہے تو ایسی صورت میں اس کے کردار و گفتار کو کنٹرول کرنے میں دینی اور سماجی اقدار ہی موثر ثابت ہوتی ہیں۔ یہ اقدار حقوق اور فرائض کی محافظ ہوتی ہیں۔
پبلک مقامات کا دائرہ اسکولوں ، کالجوں ، یونیورسٹیوں ، تقریبات کے مراکز، پارکوں اور تفریحی مقامات تک پھیلا ہوا ہے ، بلکہ پبلک مقامات کا دائرہ یہیں تک محدود نہیں۔ دکان ، تجارتی مراکز ، قہوہ خانے ، تھیٹرز اور بازار بھی اسی زمرے میں آتے ہیں۔ کبھی کبھی ان مقامات پر قومی مزاج، اخلاق اور آداب کے منافی سرگرمیاں اور تصرفات دیکھنے میں آتے ہیں۔ ان مقامات کو تفریح ، خوشی اور سیر کے مراکز کے بجائے بے چینی، پریشانی اور اذیت دینے والے مراکزمیں تبدیل کرنے کی ہر کوشش کو روکنا ضروری ہوتا ہے۔ یہ کام قومی ذوق، مزاج، سماجی آداب اور اخلاق ہی کے ذریعے انجام دیا جاتا ہے۔
مثال کے طور پر بعض لڑکے ، لڑکیوں کی مماثلت اختیار کریں یا لڑکیاں لڑکوں جیسا لباس زیب تن کریں۔ لڑکیاں چال ڈھال لڑکوں والی اپنا لیں ۔ لڑکے قومی مزاج کے منافی طور طریقے اپنانے لگیں ۔یہ ایسے کام ہیں جنہیں قانون کے ذریعے کنٹرول نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ایسے کام ہیں جن کا سدباب سرکاری اہلکاروں کے دائرہ کار میں نہیں آتا۔ ایسا ہر کام جسے عام لوگ اخلاق سوز اور سماجی مزاج و ذوق و تہذیب کے منافی سمجھتے ہوں اسے کنٹرول کرنے کیلئے دینی، سماجی آداب و اخلاق ہی سے کام لیا جاسکتا ہے۔
اقتصادی و صنعتی ادارے بیشک نجی ملکیت ہوتے ہیں لیکن اگر کسی کارخانے یا کسی اقتصادی ادارے کے اندر سماجی ذوق و ادب ، آداب و اخلاق کے منافی سرگرمی ہونے لگے اور اس کیلئے باقاعدہ ہلہّ گلّہ بھی ہونے لگے تو ایسی حالت میں سرکاری اہلکارہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھ سکتے بلکہ قومی نظام کے تحفظ اور سماجی امن و امان کی فضا مکدر کرنے سے بچانے کیلئے انہیں مداخلت کرنی ہوگی۔ضروری نہیں کہ فیکٹری یا اقتصادی ادارے میں جو کچھ ہورہا ہو وہ زبانی جمع خرچ تک محدود ہو۔ ممکن ہے وہاں اشتعال انگیز سرگرمیاں ہو ں۔ انہیں کنٹرول کرنا سرکار ہی کا فرض ہے۔
آخر میں یہ بات عرض کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ ہر معاشرے میں سماجی آداب کا اپنا تشخص ہے ۔ ہمارے معاشرے میں سماجی آداب کا تحفظ قومی مزاج اور ذوق کی پاسداری اور انتظامی اختیارات کا بنیادی ہدف مانا جاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے یہاں یہ قومی نظام کے ستون کا درجہ رکھتا ہے۔ اس حوالے سے ضروری نہیں کہ حد سے تجاوز قومی نظام کو براہ راست زک پہنچانے سے ہو۔ یہاں یہ اضافہ بھی کرنا چاہونگا کہ اس قسم کی غلطیوں کے حوالے سے عوام الناس اچھائی اور برائی کے درمیان تمیز کرنے کیلئے میانہ رو واقع ہوئے ہیں۔ ہمارے معاشرے کا معمول یہ ہے کہ وہ افراد اور گروپوں کے حوالے سے سماجی آداب کی خلاف ورزی کی بابت اپنا خاص ذوق رکھتے ہیں۔ ہمارا معاشرہ سماجی روایات اور طور طریقوں کے تحفظ کے حوالے سے آباﺅ اجداد کے طریقے اپنائے ہوئے ہے۔ یہ ہمارے یہاں فکری سلامتی کا اٹوٹ حصہ ہے ۔ اس کا تحفظ واجب ہے لہذا سماجی آداب کے منافی عمل پر ضد، ہٹ دھرمی، سماجی روایات کے خلاف بغاوت یا مادر پدر والی آزادی کیلئے ہمارے یہاں کوئی جگہ نہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭