اسلامی اخلاق کی تعلیم و تفہیم کی ضرورت کب تک رہیگی؟
عبداللہ فراج الشریف ۔ المدینہ
میں نے اپنے مضمون کا جو عنوان مقرر کیا ہے ۔ مضمون ہی اسکا جواب ہوگا۔ ہمیں معلوم ہے کہ اسلام اخلاق کا علمبردار مذہب ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے پیغمبر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت قرآن پاک میں جو بات بتائی ہے وہ یہ ہے۔ (وہ اللہ ہی ہے جس نے ناخواندہ قوم میں اپنا پیغمبر بھیجا وہ انہی میں سے ہے۔ وہ انہیں قرآن کی آیتیں سناتا ہے اور ان کا تزکیہ کرتا ہے) تزکیے سے مراد شرک، غیر اللہ کی عبادت ،گھٹیا اخلاق او ربرے رسم و رواج سے دلوں کو پا ک و صاف کرنا ہے۔ اخلاق اسلام میں بنیاد کے پتھر کا درجہ رکھتا ہے۔ دور اول کے مسلمان اعلی اخلاق کے حوالے سے ہی مشہو رہوئے۔ ان کے اخلاق کی بدولت ہی اسلام کو رواج ملا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ( مجھے اخلاق عالیہ کی تکمیل کیلئے ہی بھیجا گیا ہے) ایسا لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عربوں کو آسمانی دعوت کے لئے اسی لئے منتخب کیا تھا کیونکہ وہ اعلیٰ اخلاق کیلئے مشہور تھے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جب پوچھا گیا کہ اہل ایمان میں سب سے زیادہ بہتر کون لوگ ہوتے ہیں تو آپ نے جواب دیا تھا (اہل ایمان میں سب سے اچھا اخلاق والے سب سے اچھے ہوتے ہیں) اسلامی نظام کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ اس میں عبادات کا نظام انسانوں کو فحاشی اور برائی سے روکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا اعلان قرآن پاک کی ایک آیت میں یہ کہہ کر کیا ہے (اور نماز قائم کرو کیونکہ نماز بدی اور فحاشی سے روکتی ہے)۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں یہ بھی بتاتا ہے کہ (ان کی دولت میں سے صدقہ لو، صدقہ انہیں پاک و صاف کردیگا)۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور خوبصورت بات کہی ہے وہ یہ کہ (جب بھی ترازو میں اعمال حسنہ تولے جائیں گے تو اعلیٰ اخلاق والا پلڑا ہی بھاری ہوگا ۔اچھے اخلاق کا مالک نماز، روزے کی پابندی کرکے ہی اس مقام پر پہنچتا ہے)۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب دین اسلام دیکر بھیجا گیا اور جو آخری آسمانی مذہب ہے تب آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے اخلاق کو بنانے سنوارنے پر سب سے زیادہ توجہ مرکوز کی۔ صحابہ کے اخلاق ہی کو دیکھ کر دنیا بھر کے لوگ اسلا م کی جانب مائل ہوئے۔ بصد افسوس یہ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ مسلم ممالک کے باشندے اسلامی اخلاق سے جس قدر دور ہیں کبھی نہیں تھے۔ عصر حاضر میں بہت کم اہل اسلام ایسے ہیں جو اسلامی اخلاق سے پوری طرح آراستہ ہوں۔ اسلام نے اہل ایمان کو پاکیزہ اخلاق اپنانے کی دعوت بھی دی ہے اور ترغیب بھی۔ اسلام کی شہرت اسکے پیرو کاروں کے عمدہ اخلاق کی ہی مرہون منت ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے اب بھی ہمیں اسلامی اخلاق کی تعلیم وتدریس اور تفہیم کی ضرورت ہوگی۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں اسکی اشد ضرورت ہے۔ ہمیں اپنی اولاد کو اسلامی اخلاق سے آراستہ کرنا ہوگا۔ اسلامی اخلاق کا پابند بنانا ہوگا اگر ہم یہ ہدف پورا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو اہل اسلام ایک بار پھر بنی نوع انساں کے قافلہ سالار بن جائیں گے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭