کراچی۔۔۔پاکستان کے سب سے پسماندہ علاقے بلوچستان میں جو ملک کے جنوب مغربی حصے میں کم آبادی والا لیکن رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے میں ایک نئے سیاسی بحران نے جنم لینا شروع کردیا ہے جو کہ کسی بھی طرح موجودہ صورتحال میں ملک کے لیے فائدہ مند نہیں۔ چند روز ہوئے، بلوچستان کی نوزائیدہ عوامی پارٹی 51میں سے صوبائی اسمبلی کی 13نشستیں جیت کر سب سے بڑی جماعت کے روپ میں اُبھری، اور بغیر وقت ضائع کیے انہوں نے جام کمال کو اپنا وزیر اعلیٰ نامزد کردیا، اس کو اچھی خاصی اکثریت بھی حاصل ہوگئی تھی، جام کمال نے بنی گالا میں جہانگیر ترین کے کہنے پر عمران خان سے بھی تفصیلی ملاقات کی اور عمران کی پی ٹی آئی نے گوکہ صرف 4صوبائی اسمبلی کی نشستیں جیتی تھیں، انہیں اپنا لیڈر تسلیم کرلیا،لیکن بلوچ سردار اختر مینگل جو کہ بلوچستان نیشنل پارٹی کے موجد عطا اللہ مینگل کے صاحبزادے ہیں، نے ان کی نامزدگی چیلنج کردی اور خود بھی عمران خان سے ملنے بنی گالا جا پہنچے۔گو کہ انہوں نے اپنی زبان سے نہیں کہا کہ وہ بی این پی کے نامزد وزیر اعلیٰ کو مقرر کرنا چاہتے ہیں، لیکن یہ کہنا بے جانہیں ہوگا کہ رقابت کی آگ نے کام بگاڑ دیا اور اب کئی ایک ملاقاتوں کے بعد پی ٹی آئی بلوچستان کے سردار یار محمد رند جنہیں عمران خان صوبے کا گورنر بنانا چاہتے تھے، کا نام وزیر اعلیٰ کے طور پر پیش کردیا ہے۔ صاف الفاظ میں کہا جائے تو اختر مینگل دوسری کسی پارٹی کے نمائندوں کو آگے آتے دیکھنا نہیں چاہتے، لیکن بات چیت ابھی تک جاری ہے،اب دیکھیں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے، جام کمال ایک فقیر منش انسان ہونے کے ناطے کسی الجھن میں نہیں پڑنا چاہتے۔ انہوں نے تنازعے سے بچنے کی خاطر یہ کہہ کر بات ختم کرنے کی کوشش کی جو کچھ بلوچستان کے عوام کے حق میں بہتر ہو وہ انہیں منظور ہے، عہدے اتنے اہم نہیں ہیں جتنی معاشرے کی بھلائی۔بلوچستان کی آزادی کے شیدائی غزین مری جو کہ سوئٹزرلینڈ سے بیٹھ کر علیحدگی کی تحریک عرصہ ٔ دراز سے چلارہے تھے، وہ بھی صوبائی اسمبلی کی سیٹ جیت کر اب بنی گالا کا رخ کیے ہوئے ہیں، دیکھیں ان سے عمران خان کی ملاقات ہوتی ہے کہ نہیں۔