ایران سے خلیج تک چینیوں کی دھوم
عبدالرحمن الراشد۔ الشرق الاوسط
بعض پرجوش قلمکاروں نے خودساختہ معلومات کی بنیاد پر تبصرے کرکے ایک طرح سے قارئین کو گمراہ کیا۔ جھوٹی خبریں بنیادی طور پر پھیلانے والے ایک طرح سے صحیح یا غلط بحث کا سلسلہ شروع کردیتے ہیں۔ پرجوش قلمکاروں نے تحریر کیا کہ چین نے دولت اور فوج کے بل پر عروج پایا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ چینی عروج کی جانب جارہے ہیں اور مشرق وسطیٰ میں اقتصادی اور سیاسی قدرو قیمت کے حوالے سے اضافہ کررہے ہیں لیکن ٹرمپ اور پوٹین علاقائی توازن کی ضرورت کے تحت اب بھی ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے۔
چین کا معاملہ امریکہ او رروس جیسا نہیں۔ چین جارحانہ خارجہ پالیسی سے دور ہے۔چین جنگ کا فریق بھی نہیں بننا چاہتا۔ وہ مشرق وسطیٰ میں مذاکرات کی پالیسی اپنانے سے بھی گریزاں ہے۔ اس سے قطع نظر یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ چین بڑا ملک ہے اور مشرق وسطیٰ میں اسکے مفادات روز افزوں ہیں۔ خصوصاً تیل اسکی دلچسپی کا محور ہے۔ مشرق وسطیٰ کا علاقہ دنیا بھر کیلئے شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے۔ چین علاقائی یا بین الاقوامی کسی بھی طاقت کے قبضے میں مشرق وسطیٰ کو گرتے ہوئے دیکھ کر تشویش کا شکار ہوگا۔ اسی طرح دشمن تنظیموں کی انارکی سے بھی چین کو الجھن ہوگی۔ یہ درست ہے کہ چین اپنا کوئی دو ٹوک موقف نہیں رکھتا لیکن اسکا مطلب یہ نہیں کہ وہ اقتصادی طاقت کے طور پر مشرق وسطیٰ سے غائب ہو۔ چین اسلحہ کے بغیر اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے کوشاں رہا ہے اورہے۔ پاکستان اور افغانستان اس کی روشن مثالیں ہیں۔ چین کی پالیسی براجماتی ہے۔ ایران کے ساتھ امریکہ کے اختلاف پر چین نے نہ تو امریکہ کی حمایت کی اور نہ ہی وہ ایران کے ساتھ کئے گئے ایٹمی معاہدے سے دستبردار ہوا۔ چین نے ایرانی بائیکاٹ سے بھی انکار کردیا البتہ اسی کےساتھ چین نے تیل کے سودوں کے حوالے سے ایران پر بنیادی انحصار ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ چین نے طے کیا کہ وہ ایران کے بجائے سعودی عرب سے تیل کی بنیادی ضروریا ت پوری کریگا۔ چین کا یہ فیصلہ ایران کیلئے بڑی چوٹ والا فیصلہ ہے۔
بعض لوگوں نے یہ بات اڑائی کہ چین کویت کے دو جزیرو ںمیں نصف ٹریلین ڈالر کا سرمایہ لگائے گا۔ سچی بات یہ ہے کہ یہ سوشل میڈیا پر دروغ گوئیوں کی فیکٹری کی پھیلائی ہوئی بات ہے۔ اتنی بڑی رقم خود بتا رہی ہے کہ سب کچھ من گھڑت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ چین نے 5عرب ممالک میں 20ارب ڈالر لگانے کا عندیہ دیا ہے۔ دوسرا جھوٹ یہ بولا گیا کہ چین اپنے مفادات کا تحفظ طاقت کے بل پر کریگا۔ حقیقت یہ ہے کہ چین فوجی طاقت میں کوئی میلان نہیں رکھتا۔ نہ ہی وہ ماہی گیری کیلئے جہاز بھیجتا ہے اور نہ ہی سامان منتقل کرنے کیلئے بحری بیڑے کا استعمال کرتا ہے۔ جہاں تک نصف ٹریلین ڈالر کا معاملہ ہے تو چین نے یہ رقم اندرون ملک لگانے کا فیصلہ کیاہے۔ ہمارے لئے اس سے اہم بات یہ ہے کہ چین ہمارے ساتھ تعاون کو فروغ دینے کیلئے غیر متزلزل اقدامات کررہا ہے۔ اس سے ہمارے اور چین کے درمیان امکانات مضبوط ہورہے ہیں۔
اسٹراٹیجک قربت ناگہانی نہیں بلکہ چین کیساتھ کام کرنے والے سیاستدانوں کی سیاسی کاوش کا ثمر ہے۔ سعودی فرمانروا شاہ سلمان گزشتہ برس چین کے دورے پر بیجنگ گئے۔ یہ اہم اقدام تھا۔ اس موقع پر جامع تعاون کے معاہدے ہوئے۔ حال ہی میں چینی صدر نے متحدہ عرب امارات کا پہلا دورہ کیا۔ وہاں انکا غیر معمولی استقبال کیا گیا۔ اس سے قبل چین نے اپنے یہاں دورے کے موقع پر امیر کویت کا بڑا اعزاز کیا تھا۔ اقتصاد خلیجی ممالک کی طاقت ہی نہیں بلکہ چین کے ذہن اور اس کے دل میں اترنے کا راستہ بھی ہے۔ یہ فریقین کے درمیان یہ ایسی شراکت ہے جس سے کوئی بھی ایک دوسرے کے حوالے سے زیر بار نہیں ہوتا۔ ایرانی اس قربت کو کس نظر سے دیکھ رہے ہیں ہمیں اس سے کوئی زیادہ دلچسپی نہیں۔ چین ایرانی پیٹرول سے دستبردار ہوکر سعودی عرب اور خلیج کا رخ کررہا ہے اور اس بات سے ایرانی بڑے طیش میں ہیں۔ انہیں پتہ چلا ہے کہ وہ اقتصادی اعتبار سے محصور ہوتے جارہے ہیں۔ عسکری اعتبار سے شکست خوردہ اور سیاسی اعتبار سے نکو ہورہے ہیں۔ ایران تخریب کاری کی پالیسی اپنا کر مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کرسکتا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭