Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

2019کا الیکشن ہمیں کہاں لے جائے گا؟

***ظفر قطب۔ لکھنؤ***
2019 کے پارلیمانی الیکشن کی تیاریاں ہندستان میں ابھی سے ہو چکی ہیں۔کچھ جماعتوں نے تو ابھی سے مشتہری کا کام شروع کر دیا ہے۔ جو پارٹی سب سے زیادہ خطرہ محسوس کر رہی ہے وہ کچھ زیادہ ہی اچھل پھاند مچانے لگی ہے اور اس کے ہر جلسے کو بڑھا چڑھاکر ذرائع ابلاغ اس طرح پیش کرنے لگے ہیں گویا کہ الیکشن کا آغاز اسی جلسے سے ہو گیا ہے۔ اس معاملے میں بی جے پی پیش پیش ہے اس کے زرخرید الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے حکمراں جماعت کا قصیدہ پڑھنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانا شروع کر دیا ہے۔مثلاً مودی نے جب مشرقی یوپی کے ایک قصبہ مگہر سے کبیر داس کے بہانے ایک جلسے سے  خطاب کیا تو سب نے کہا کہ 2019 کے پارلیمانی الیکشن کا نقارہ بج گیا ہے۔اس کے تھوڑے ہی دنوں بعد جب اعظم گڑھ میں مودی نے دوسری ریلی کی تو الیکٹرانک میڈیا پھر چیخ پڑا کہ الیکشن کا آغاز مودی نے کر دیا ،اور وہ بھی سماجوادی پارٹی کے سربراہ ملائم سنگھ یادو کے گھر میں آکر ،غرضیکہ جب مودی اپنے حلقے بنارس میں گئے تو اس وقت بھی یہی باتیں کہیں گئیں۔
مودی ہر جگہ ترقیات کی باتیں کرتے رہے اور بے روزگاری تیزی کے ساتھ بڑھتی رہی  ۔اکھلیش یادو کے ڈریم پروجیکٹ سماجوادی پوروانچل ایکسپریس کا دوبارہ افتتاح کرکے وہاں اپنے نام کی نئی تختی لگا دی اس پروجیکٹ سے سماجوادی نام ہٹاکر صرف پوروانچل ایکسپریس نام کر دیا۔ ان کے دعووں کی روشنی میں اگر وزیر اعظم کے ساڑھے چار برس کی کارکردگی پر غور کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ کہیں کچھ بھی ترقیاتی کام نہیں ہوا ہے۔گنگا اب بھی میلی ہے۔ اس کے گھاٹوں سے اب بھی سڑاند اٹھ رہی ہے بنارس شہر کی نالیاں گندگی  سے بھری ہیں۔ پورا شہرکھدا پڑا ہے عوام کو پیدل چلنا مشکل ہو رہا ہے۔اجابت گاہوں کی تعمیر کے نام پر پیسے کی لوٹ مچی ہوئی ہے ۔ نوٹ منسوخی اس صدی کا سب سے بڑا گھپلہ بن کر سامنے آیا ہے ۔ ریکارڈ مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی تو بے روزگاری نے نوجوانوں کو قنوطیت کے گڑھے میں ڈال دیا ۔ ان سب کے باوجود بی جے پی کے ریاستی وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ ان کے وزراء اور یوپی کے مرکزی وزراء نیز ملک کے سرمایہ داروں کے بھونپو میڈیا مسلسل یہ پروپیگنڈہ کرتے تھک نہیں رہے ہیں کہ ترقیات کی گنگا بہہ رہی ہے۔ جو کام 70برسوں میں نہیں ہوا اُسے مودی حکومت نے چند برسوں میں کرکے دکھا دیا۔ترقی کے جھوٹے اعداد و شمار پیش کرکے عوام کو گمراہ کرنے کی کوششیں جاری ہیں لیکن بھلا ہو چھوٹے اور متوسط اخبار ات اور کم اشتہار پانے والے چینلوں کا جنہوں نے کئی بار دلائل کے ساتھ ان جھوٹے پروپیگنڈوں کی قلعی اتار کر رکھ دی ۔ماہرین نے حقائق کو پیش کرکے یہ ثابت کر دیا ہے کہ  اس وقت ملک کی معیشت شدید خطرے میں ہے۔ملک میں روزگار کے وسائل معدوم ہو چکے ہیں اور جو ہیں بھی ان میں زبردست طریقے پر تخفیف ہوتی جا رہی ہے زبردست گرانی نے عام آدمی کی کمر توڑ دی ہے ان میں سب سے برا حال کاشتکاروں کا ہے جو مجبور ہوکر خودکشی کر رہا ہے ۔مزدوروں اور شہری غریبوں کی حاات ناگفتہ بہ ہے ۔ شہر کا  متوسط طبقہ انتہائی کسمپرسی کے عالم میں زندگی گزار رہا ہے ۔ ان پریشانیوں اور محرومیوں کے دور میں ملک کے امیروں کی چاندی ہوگئی ہے اور وہ دونوں ہاتھوں سے سونا بٹور رہے ہیں۔ اس کی مثال اس ریکارڈ سے دی  جا سکتی ہے کہ صرف گزشتہ برس ملک میں 17نئے کھرب پتی پیدا ہو چکے ہیں۔ اس طرح ہندوستان میں اب کھرب پتیوںکی تعداد 101 ہوچکی ہے۔ایک ایجنسی ’آکس فیم ‘کی رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں گزشتہ برس پیدا ہونے والی 73فیصد دولت ملک کے انہیں امیروں کے ہاتھ میں چلی گئی۔ ان امیروں کی تعداد ملکی آبادی کا صرف ایک فیصد ہے ۔ اس چھوٹے سے گروپ کی دولت میں گزشتہ چند برسوں میں 20.9لاکھ کروڑ روپے کا اضافہ ہوا ہے جو 2017 کے ملکی بجٹ سے مقابلہ کر رہا ہے۔
دوسری جانب ملک کی 67کروڑ آبادی کی دولت میں اضافہ صرف ایک فیصد ہوا ہے۔ ملک کے کھرب پتیوںکی دولت میں 4991کھرب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ یہ اتنی بڑی رقم ہے جس سے ملک کی سبھی ریاستوں کی تعلیمی اور صحت خدمات کا 85 فیصد صرفہ پورا ہو جائے گا۔ ہندوستان میں معاشی تفریق اور نابرابری اس حد تک ہے کہ اس کا اندازہ صرف اس مثال سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہندستان کے کسی بھی بڑی ملبوسات کی کمپنی کے اعلیٰ افسر کی ایک برس کی تنخواہ کے برابر کسی مزدور کو کمانے میں 941برس لگ جائیں گے۔ وزیر اعظم مودی کے عہد میں جتنی نابرابری بڑھی ہے ملک کے کسی وزیر اعظم کے دور میں ایسا نہیں ہوا۔آزادی کے بعد ملک میں بی جے پی حکومتوں نے جس طرح سرمایہ دارانہ  جاگیر دارانہ معاشی نظام اپنایا ہے اس میں عدم مساوات کو بڑا فروغ ملا ہے۔امیر مزید امیر ہوتا  گیا  اور غریب اندھیرے کی نظر ہوتا چلا گیا۔ یہی غلطیاں اس سے پہلے کی حکومتوں نے  بھی کی تھیں جس کا فائدہ اٹھاکر نریندر مودی اقتدار میں آگئے۔  انہوںنے کروڑوں روپئے خرچ کرکے ملکی عوام کے سامنے اچھے دن کا خواب پیش کیا تھا اور اس نئے تجربہ سے انہوں نے سارے ووٹ بٹور کر اپنی جھولی میں ڈال لیے تھے۔ انہوں نے اقتدار پر قبضہ ضرور کر لیا تھا لیکن عوام کو بھی مایوس ہونے میں ذرا بھی دیری نہیں لگی اور اسے احساس ہو گیا کہ اپنی چکنی چپڑی باتوں میں الجھا کر صرف اقتدار ہتھیانے کا مودی نے کام کیا ہے۔عوام بھی سمجھ گئے کہ اپنے جملہ بازیوں کے سہارے انہوں نے ہمیں خوب ٹھگا۔  اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد مودی اپنے تمام وعدے بھول گئے۔   مودی کے عہد میں معاشی نابرابری ہمالیہ کی چوٹی پر پہونچ گئی۔ اس کے خلاف جب آوازیں اُٹھنے لگیں تو اس کو دبانے کے لیے مذہب کا سہارا لیا گیا۔مذہبی جنون اور اندھی قومیت کے شور میں عوام کے مطالبات دب گئے اس کے علاوہ بی جے پی اور آر ایس ایس کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔ اس وقت وزیر اعظم جب بھرے مجمع  میں ’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘کی بات کرتے ہیں تو  ہر چہرے پر ایک طنزیہ مسکراہٹ دوڑ جاتی ہے۔ یہ نعرہ اب ایک مضحکہ خیز جملہ بن کر رہ گیا ہے جو سوقیانہ مذاق سے کم نہیں ہے۔حقیقت تو یہ ہے کہ اگر ملکی ترقی پر نظر ڈالی جائے تو یہ شے ملک کے سرمایہ داروں کے حصے میں آئی ہے یا پھر افسر شاہی خوب  مزے کر رہی ہے۔ ہندستان میں گزشتہ ڈھائی دہائی سے یہاں  کی حکومتوںنے عالمی بازار کے لیے زیادہ سے زیادہ سہولیات مہیا کرائی ہیں۔ سرمایہ کے بہاؤ میں تیزی لانے کیلئے ہندستانی مارکیٹ کو بہت کھلا رکھا گیا ہے۔جس میں پرائیویٹ کاری کا خوب فروغ ہوا ہے۔
رہی سہی کثر مودی حکومت نے اس طرح پوری کردی کہ اب پورے ملک کی معیشت چند مٹھی بھر سرمایہ  دار گھرانوں میں سمٹ کر رہی گئی ہے اس میدان میں قانون محنت کا کھل کر مذاق اُڑایا گیا۔سرمایہ داروں کی خوشامد میں قانون محنت میں زبردست نرمی لائی گئی تاکہ تجارت کرنا اور آسان ہوجائے نیز مزدوروں کی محنت آسانی سے حاصل کرکے ان کا استحصال کیا جا سکے اور اگر وہ اس کے خلاف آواز بلند کریں تو انہیں نکال باہر کر دیا جائے ۔اس طرح مودی حکومت میں مزدوروں کے حقوق سلب کر لیے گئے پالیسیوں میں تبدیلی کرکے غیر ملکی کمپنیوں کو لاکھوں کروڑوں روپئے کی سبسڈی دی گئی۔ ملکی وسائل کو لوٹنے کی کھلی آزادی مہیا کرا دی گئی۔جس کا نتیجہ یہ ہے کہ مزدوروں کی حالت تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی ہے ۔
 

شیئر:

متعلقہ خبریں