نوری المالکی کی وہم پرستی عراق کو لے ڈوبے گی
17اگست 2018ء جمعہ کو سعودی عرب سے شائع ہونیوالے عربی اخبارعکاظ کا اداریہ نذر قارئین ہے
اب یہ بات کسی بھی صاحب نظر کی آنکھوں سے اوجھل نہیں رہی کہ نوری المالکی عراق میں ایرانی نظام کے اول درجے کے کارندے ہیں۔ وہ ایرانی آقاؤں کو خوش کرنے کیلئے عراق کی اینٹ سے اینٹ بجانے، عراقیوں کے سر کچلنے اور عراق کی تاریخ کو پیروںتلے روندنے کیلئے تیار ہیں۔نوری المالکی کا ایک ہی ہدف ہے وہ کسی بھی طرح اقتدار کی کرسی چپکے رہنا چاہتے ہیں۔ وہ پہلے اقتدار کے حصول میں ناکام ہوچکے تھے اتنا ہی نہیں بلکہ ان کی ناعاقبت اندیشی نے عراق کے متعدد علاقوں پر داعشی دہشتگردوں کے ناجائز قبضے کی سبیل پیدا کردی تھی۔ الموصل پر داعش کا قبضہ نوری المالکی کی ناعاقبت اندیشی ہی کا نتیجہ تھا۔ المالکی ایسے وزیر اعظم ہیں جنہیں ایران کے حکمراں تہران میں بیٹھ کر ریموٹ کنٹرل کے ذریعے قابو کئے ہوئے ہیں۔ انہوں نے نہ تو تاریخ سے سبق سیکھا ہے اور نہ سیکھیں گے۔ فی الوقت جو کھیل کھیلا جارہا ہے وہ وہی ہے جو پہلے بھی کھیلا جاچکا ہے۔ عراق میں حالیہ پارلیمانی انتخابات کے نتائج کا جو چپت ایران کو لگا تھا اس کے بعد سے وہ بوکھلایا ہوا ہے۔ مقتدیٰ الصدر کی زیر قیادت ’’سائرون‘‘محاذ نے دیگر حریفوں کو ششد رو حیران کردیا تھا۔ الصدر عراق کے اندرونی امور میں ایرانی مداخلت کے مخالف ہیں۔ ایران نے اس کے بعد بغداد کے سیاسی فیصلوں کی نکیل اپنے ہاتھ میں رکھنے کیلئے نئے محاذ قائم کرنے اور پرانے گروپوں میں نقب لگانے کا چکر چلایا تھا اس میں بھی اسے منہ کی کھانی پڑی تھی۔ اب جب کہ ایران کو یقین ہوچکا ہے کہ عراقی اسے سیاسی منظر نامے میں دیکھنے کے متحمل نہیں رہے تو ایران نے اپنا پرانا نیا کھیل دوبارہ شروع کردیا۔ایران فرقہ وارانہ فتنہ بھڑکا رہا ہے۔ ملیشیاؤں کو ایک دوسرے سے لڑوا رہا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا عراقی اس جہنمی منظر نامے کا مقابلہ کرنے میں کامیاب ہوسکیں گے۔؟