کڑا امتحان تو اب شروع ہوا ہے
***ڈاکٹر منصور نورانی ***
وزیراعظم عمران خان صاحب سے قوم کی توقعات ماضی میں گزرے ہوئے دیگر وزیراعظم سے نسبتاًاِس قدر زیادہ ہیں کہ اُن کا پورا کرناخود اُن کیلئے بہت مشکل ہے۔اِن توقعات کو قائم کرنے میں ہمارے عوام کا کوئی قصور نہیں ۔ خان صاحب نے خود ہی اپنی سیاسی مہم میں تبدیلی کے اتنے بلند بانگ دعوے کردئیے ہیں کہ اب اُن سے مکرجانانا یا منحرف ہوجانا کسی طور ممکن نہیں ہے۔یہ درست ہے کہ اِس وقت ملک کے معاشی و اقتصادی حالات اِس قدراچھے اور سازگار نہیں ہیں کہ وہ اطمینان او ر سکون سے اپنے منشور پر عملدرآمد کرپائیں لیکن ہمیں یاد رکھناچاہئے کہ 2013ء میں جب سابق وزیراعظم نواز شریف نے عنان حکومت سنبھالا تھا تو ملک کے معاشی حالات اِس سے بھی ذیادہ دگر گوں تھے۔زرمبادلہ کے ذخائر موجودہ ذخائر سے بھی کم تھے ۔سارے ملک کے اندر دہشت گردوں کاراج تھا۔کوئی شہر اور کوئی قصبہ بم دھماکوں اور خود کش حملوں سے محفوظ نہیں تھا۔ دنیا کا کوئی ملک یہاںسرمایہ کاری پررضامند نہیں تھا۔ سرمایہ دار تو کیا آتے کسی ملک کا کوئی کھلاڑی بھی یہاں چند دنوں کیلئے کوئی ٹورنامنٹ یا میچ کھیلنے پرراضی نہ تھا۔توانائی اور بجلی کا بحران اِس قدر شدید تھا کہ دس دس اور بیس بیس گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ کی جارہی تھی۔ملیں اور کارخانے بند ہوتے جارہے تھے۔ملک کا سب سے بڑا تجارتی حب شہر کراچی اپنے ہی لوگوں کی زیادتیوں کی وجہ سے 20،25 سالوں سے تباہ ہوچکاتھا۔خدا کا شکر ہے کہ آج حالات ایسے ہرگز نہیں ہیں۔دہشت گردوں کا تقریباً مکمل خاتمہ کیا جاچکا ہے۔بجلی کا بحران بھی بڑی حد تک حل ہوچکا ہے۔ شہر کراچی کے لوگ بھی امن و امان کی لذتوں اور نعمتوں سے بہرہ مند ہورہے ہیں۔سی پیک کی مدد سے نئے اور خوشحال پاکستان کی بنیاد رکھی جاچکی ہے۔سڑکوں اور شاہراہوں کا جال بچھایا جا چکا ہے۔ضرور ت اب صرف پر عزم ارادوں اورمنصوبوں پرسنجیدگی اور نیک نیتی سے کام کرنے کی ہے۔خان صاحب کو سیاسی حریفوں سے مار کٹائی اور لڑائی کی بجائے صرف اِسی ایک ایجنڈے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
وزیرا عظم کے انتخاب والے دن جوکچھ پارلیمنٹ میں ہواوہ کسی لحاظ بھی سے نئی حکومت کیلئے نیک شگون نہیں تھا۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ خان صاحب اپوزیشن کے احتجاج اور اشتعال انگیزی کو خیال خاطر میں نہ لاتے اور جواباً ایک جذباتی اور سیاسی تقریر کرنے کی بجائے بلاول زرداری کی طرح ایک سلجھی ہوئی بصیرت افروز تقریر کرتے ۔اُس دن اِس نوجوان سیاستداں نے بہت سے پرانے اور نسبتاً اپنے سے ذیادہ عمر کے سیاستدانوں کو یقینا شرمندہ کیا ۔خان صاحب کو بھی اب پارلیمنٹ کے آداب ملحوظ خاطر رکھنا ہونگے۔وہ اگر ایسا نہیں کرینگے تو اُن کے اُس منصب کی قدرومنزلت پریقینا سوالات اُٹھیں گے جسے اِسی پارلیمنٹ نے اُنہیں تفویض کیا ہے۔وہ اب اِسے لعنتی اور جعلی ہرگز نہیں کہہ سکتے۔اُنہیںاب اِس بات کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا ہوگا کہ جو کچھ وہ پانچ سال تک اِس ملک کی سڑکوں پریا پارلیمنٹ میں کرتے آئے ہیں اپوزیشن بھی آج وہی کچھ بمع سود واپس لوٹانے کا حق محفوظ رکھتی ہے۔شہروں کو بند کردینے اور ڈی چوک پر 126دنوں تک ڈیرہ جمانے یاوزیراعظم ہاؤس اور پارلیمنٹ پر حملوں کو جس طرح وہ اپنا جمہوری حق قرار دیتے رہے ہیں آج وہی حق اگر اُن کی اپوزیشن استعمال کرے تو اُنہیں قطعاً معترض نہیں ہونا چاہئے۔ اُنہیں صرف اپنے منشور اور اپنے5 سالہ ایجنڈے پر توجہ مرکوز رکھنا ہوگی۔وہ اگر اِس مقصد کو بھول کراپوزیشن کے ساتھ محاذ آرائی یا پنجہ آزمائی میں لگ گئے تو پھر اُن کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔اُنہیںسیاست کے زریں اصولوں پر عمل پیرا ہوکر صرف اِس ملک کے تعمیرو ترقی میں اپنی توانائیاں صرف کرنا ہونگی۔تبھی جاکر وہ کامیاب و سرخرو ہوسکتے ہیں۔قوم اُن سے اُن کے تبدیلی کے خوش نما اور دلفریب نعروں اور وعدوں کی تکمیل چاہتی ہے۔ وہ اِس انتظار میں بیٹھی ہے کہ خان صاحب کب اور کس طرح اُنہیں اُن کی مشکلات سے باہر نکالیں گے۔کب اُن کے مسائل حل کریں گے۔سو دن کا ایجنڈا بھی کسی اور نے نہیں خود اُنہوں نے ہی قوم کو دیا ہے۔وہ اِس سود نوں میں اگر اُس پر مکمل عمل درآمد کرپائے تو یقینا کامران وسرخرو ہوپائیں گے۔ اگر100دنوں ہی کا ایجنڈا ناکام ونامراد ہوگیا تو پھرآگے کا سفر انتہائی کٹھن اور مشکل ہوگا۔اپوزیشن میں رہ کر تنقید کرنا بہت آسان ہوا کرتا ہے۔ خان صاحب کی خوبیوں اور صلاحیتوں کاامتحان تو اب شروع ہوا ہے۔ایک مستعد اور جارح اپوزیشن لیڈر کا کردار تواُنہوں نے بخوبی انجام دے لیا ہے۔اب ایک قابل اور باصلاحیت حکمراں کا کردار اُنہیں ادا کرنا ہے۔ وہ اِس امتحان میں کیسے اورکس طرح پورے اترتے ہیں قوم یہ دیکھنے کی یقینا منتظر ہے۔
ملک کی معاشی مشکلات سے نبردآزما ہونے کیلئے اُنہوں نے اسد عمر کو وزیرخزانہ مقر رکردیا ہے۔یہ اب اسد عمر کی ذمہ داری ہے کہ سابقہ دور میں ٹیلی ویژن پر بیٹھ کر ملک کے معاشی بحران کے حل کیلئے وہ جو طلسماتی فارمولے پیش کیا کرتے تھے اُنہیں اب کس طرح خود اپنے دور میں اپناتے ہیں۔ غیر ملکی قرضے لینے پر سابقہ حکمرانوں کو مطعون و ملعون کرنے والے اب کس طرح خود کو اِس فعل قبیح سے بچاپاتے ہیں۔پاکستان اسٹیل ملز گزشتہ کئی برسوں سے بند پڑی ہوئی ہے۔وہاںکوئی پروڈکشن نہیں ہورہی ہے۔تمام کارکن اور مزدور بیکار بیٹھے ہوئے ہیں۔ملکی خزانے سے اربوں روپے اُن کی ماہانہ تنخواہوں کی نذر ہوجاتے ہیں۔ اُسے نجی تحویل میں دینے کی جب جب کسی حکومت نے کوشش کی اپوزیشن اُس کی راہوں میں حائل ہوتی رہی۔نتیجتاً وہ نہ چل پائی اور نہ فروخت ہوپائی ۔ یہی حال پاکستان ائیر لائن کا بھی ہے۔ اُس کاسالانہ خسارہ روز بروز بڑھتا جارہا ہے۔ سابق وزیر خزانہ اسحق ڈار جب کوئی صائب تجویز پیش کرتے اپوزیشن اُن کا راستہ روک لیتی۔یہ دونوں بڑے مسائل موجودہ حکومت کو بھی اب ورثہ میں ملے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ اب اِنہیں کس طرح حل کرپاتی ہے۔خان صاحب کی پارٹی اپوزیشن میں رہتے ہوئے اُن دونوں اداروں کی نج کاری کے خلاف رہی ہے۔ اُن کے خیال تھاکہ دیانت اور ذہانت اِن دونوں اداروں کو فعال کر کے منافع بخش بناسکتی ہے۔اب اسی دیانت اور ذہانت کیلئے ایک کڑا امتحان ہے۔
سابقہ دور میں تحریک انصاف کی جانب سے قوموں کی برادری میںپاکستان کے تنہا رہ جانے کا بہت واویلا پیٹا گیا۔حالانکہ اول تو ایسی کوئی بات ہی نہ تھی۔ وطن عزیز کے ساری دنیا سے تعلقات بہت اچھے اوردوستانہ رہے ہیں۔ایک امریکا ہی ہے جس سے ہمارے تعلقات میں کبھی بھرپور وارفتگی اور کبھی اچانک سرد مہری آجایا کرتی ہے۔یہ سب خود امریکی پالیسیوں کا حصہ ہے۔ہمارا اِس میں کوئی عمل دخل نہیں ۔ ہم توخود کو صرف اُس کے عتاب سے بچانے کی فکر میں لگے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہ مسئلہ 70سالوں سے ہمیں درپیش ہے۔ ہم جب تک اپنی خود مختاری اور آزادی پرکوئی سمجھوتہ نہیں کرلیتے یہ مسئلہ کبھی حل نہیں ہوگا۔خان صاحب بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ بین الاقوامی طور پر تنہارہ جانے کا یہ گلہ اور رونادراصل کسی بھی حکومت پر خواہ مخواہ تنقید کرنے کاایک اچھا اورکامیاب حربہ ہے جسے ہر اپوزیشن بھر پور طریقے سے استعمال کرتی رہی ہے۔اب خود اُن اپنی باری ہے ایسے الزامات کو شائستگی اور بردباری سے برداشت کرنے کی۔ دیکھتے ہیں کہ وہ اپوزیشن کے ایسے کئی اور حملوں کی تاب کس طرح لاپاتے ہیں۔