Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا ہم واقعی محفوظ ہیں؟

***ظفر قطب ۔لکھنؤ***
حکمراں جماعت بی جے پی نے اپنی میرٹھ میں حال میں ہوئی مجلس عاملہ میں جہاں بہت سی تجاوززیر غور ہیں تو وہیں کچھ مضحکہ خیز باتیں بھی کیں جوآئندہ پارلیمانی انتخاب کے ناخوشگوار عواقب سے گھبراکر خود ملک کے وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ بہت سی باتیں کہہ گئے ۔ایک طرف تو انہوں نے کشمیر میں مسلح افواج کو کھلی آزادی دینے کی بات کہی اوردعویٰ کیا کہ ہم نے ان سے کہا کہ اب تمہارے ہاتھ بندھے نہیں ہیں۔ جس حدتک جاناچاہو جاؤ، تووہیں انہوں نے اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی تعریفوں کے پل باندھے ۔ انہوںنے اپنے راجپوت برادری کے اس وزیراعلیٰ کے سلسلے میں یہ دعویٰ کرڈالا کہ آج جرائم پیشہ افراد کوئی بھی کارروائی کرنے سے قبل کئی بار سوچتے ہیں کہ یہ واردات انجام دی جائے یانہیں ۔ واقعی اتنے بڑے ملک کے وزیرداخلہ کے منھ سے اس قسم کی باتیں سن کر سب کو ہنسی آجاتی ہیں
انہیں سب معلوم ہے کہ اترپردیش جو ملک کی سب سے بڑی ریاست ہے وہ کتنی محفوظ ہے اس طرح کا دعویٰ کرنے کی بی جے پی کے لیڈروں کی عادت سی بن گئی ہے۔ ابھی زیادہ دن نہیں ہوئے گزشتہ ماہ کے اواخر میں لکھنؤ میں  جس وقت سرمایہ کاری کانفرنس چل رہی تھی جس میں ملک کے بڑے بڑے سرمایہ کار موجود تھے۔ انہیں وزیراعظم نریندرمودی اورخود وزیرداخلہ راجناتھ سنگھ اور ان کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ یہ سمجھانے کی کوشش کررہے تھے کہ آپ کے کاروبار کیلئے اترپردیش سب سے زیادہ محفوظ جگہ ہے۔ انہیں ہرقسم کی سہولیات دینے کا اعلان بھی کر رہے تھے۔ دوسرے دن اخبارات سے پتہ چلا کہ 60 ہزار کروڑ کی سرمایہ کاری اترپردیش میں ہورہی ہے۔ اسی دن وزیراعظم نریندرمودی نے کئی پروجیکٹوں کاسنگ بنیاد بھی رکھ دیا جس طرح وہ اپنی ساڑھے چار سالہ حکومت کے دوران رکھتے آئے ہیں لیکن کسی پروجیکٹ کی تکمیل کون کہے ان کی توشروعات بھی نہیں ہوئی ۔ وجہ تھی اترپردیش کا خراب نظم ونسق اورجرائم کے ٹوٹتے سارے ریکارڈ۔ اس ریاست میں فرقہ پرستی عروج پر ہے۔ جس سے ہجومی تشددبڑھتاجارہاہے ۔ ماب لنچنگ کے واقعات آزادانہ طور پر ہورہے ہیں۔ جس پر نہ تو راجناتھ سنگھ کا قابو ہے اور نہ ہی وزیراعلیٰ کا ۔ 
جس سرمایہ کاری اجلاس میں بی جے پی کے بڑے بڑے لیڈر ملکی سرمایہ کاروں کو اترپردیش انتہائی محفوظ جگہ ہونے کے سلسلے میں بتارہے تھے۔ اس کے برخلاف دوسرے دن ہی لکھنؤ میں بھیانک بینک ڈکیتی کا واقعہ پیش آگیا ۔اس بار جرائم پیشہ افراد نے اپنی ہمت کا مظاہرہ اس طرح کیا کہ دن دہاڑے انہوں نے اہم شخصیات والے علاقہ گورنر ہاؤس کے پاس واقع حضرت گنج کی پولیس چوکی گوتم پلی کے تحت آنے والے ایکسیز بینک کو نشانہ بنایاجس وقت بینک کی کیش وین سے لاکھوں روپئے کی گڈیاں اندر رکھی جارہی تھیں وہاں مصلح گارڈ بھی موجود تھا لیکن جرائم پیشہ افراد کے حوصلے اتنے بلند تھے کہ وہ 20 لاکھ روپئے سے بھرا ایک بیگ چھین کر چلتے بنے اس دوران خون خرابہ بھی ہوا ۔کیش وین کے گارڈ نے فرض شناسی نبھانے کی کوشش کی تو اسے گولی مارکر ہلاک کردیا گیا ۔ڈرائیور کی ٹانگ میں گولی لگی وہ آج بھی میڈیکل یونیورسٹی کے ٹراماسینٹر میں زیرعلاج ہے۔ بدمعاشوں نے یہ پوری کارروائی15،20 منٹ میں انجام دی۔ وہ دوکی تعداد میں تھے۔جس موٹرسائیکل سے آئے تھے اسی سے وہ فرار ہوگئے۔ اسے اچانک پیش آنے والا واقعہ نہیں کہاجاسکتاہے۔ کیوں کہ یہ منظم سازش تھی کسی نوسکھیے گروہ نے یہ واردات انجام نہیں دی تھی۔ بلکہ انتہائی پیشہ ور چالاک لوگ تھے۔ ان کی موٹرسائیکل نمبر کی مدد سے جب ان کا پتہ لگانے کی کوشش کی گئی تو معلوم ہوا کہ وہ کسی اسکوٹی کا نمبر تھا جو کسی لڑکی کے نام کاتھا ۔ بی جے پی لیڈروں کے روز کئے جانے والے جھوٹے دعوؤں کی اس واردات نے پول کھول دی ۔ اس بار بدمعاشوں نے جس علاقہ کو نشانہ بنایاتھا اسی علاقہ میں اہم شخصیات والا سرکاری گیسٹ ہاؤس ہے۔ جہاں دوسری ریاستوں کے وزراء اورگورنر قیام کرتے ہیں۔ ریاستی وزراء کے بنگلے بھی چند قدم کی دوری پر ہیں اسی قطار میں وزیراعلیٰ کا بھی بنگلہ ہے ۔ قدم قدم پر سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہیں،لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ذرائع ابلاغ نے بتایاکہ جب ان کیمروں کی فوٹیج دیکھنے کی کوشش کی گئی تو اس میں کچھ بھی نہیں ملا۔پتہ چلا کہ کیمرے ٹھیک سے کام نہیں کررہے رہے تھے۔اس لئے ان میں لٹیروں کی تصویر آنے کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ یہ ہے اترپردیش کی راجدھانی کے اہم شخصیات والے علاقہ کا حال ۔جس وقت یہ واقعہ پیش آیا اس روز سرمایہ کاری اجلا س کے شرکاء ابھی لکھنؤ میںہی موجود تھے۔ وہ ابھی روانگی کیلئے اپناسامان بھی ٹھیک سے نہیں باندھ پائے تھے۔ ایسے میں اگر سماجوادی پارٹی اور بی ایس پی کے علاوہ دیگر اپوزیشن میں بیٹھی پارٹیاں یہ الزام لگارہی ہیں کہ اترپردیش اس وقت بالکل غیرمحفوظ ہے یہاں نظم ونسق گزشتہ سال بھر سے چوپٹ ہوکر رہ گیا ہے تو کیاغلط کہہ رہی ہیں؟اس کا جیتاجاگتاثبوت بدمعاشوں نے یہاں پیش کردیا۔ اب ایسے میں 60ہزار کروڑ کی سرمایہ کاری آچکی ہے تو کیا اس کا بھی وہی حشرنہیں ہوگاجوگزشتہ برس پہلی انوسٹرکانفرنس میں ہواتھا۔ اس میں تو بیرون ممالک کے بھی سرمایہ کار اور کمپنیاں آئی تھیں۔ لیکن آج تک یوپی میں اس کاکوئی اثر نظر نہیں آیا ۔ سب آئے ضرور لیکن ان کاحال آمدن نشستن برخاستن تک محدود رہا۔ یہاں کے جرائم کا ریکارڈ دیکھ کر کسی بھی سرمایہ کار کی ہمت نہیں ہوئی۔ اب ایسے میں جب سرکاری کاغذات اور اعدادوشمار کے حساب سے 60 ہزار کروڑ کی سرمایہ کاری آچکی ہے تو اب سوال پیدا ہوتاہے کہ وہ کام کب شروع ہوں گے۔ ؟ کیوںکہ جرائم کا یہاں تیزی سے فروغ ہورہاہے اور وہ بھی چھوٹے موٹے قسم کے نہیں بلکہ اب ان کا نشانہ بینک اوربڑے تاجر گھرانے ہیں۔
لکھنؤ کی بینک ڈکیتی کے ہفتہ بھر کے اندر دوسرا بڑا واقعہ ریاست کے صنعتی شہر کانپور میں پیش آیا ۔ وہاں بھی بدمعاشوں نے بینک کو ہی نشانہ بنایا۔ ملک اوربیرون ممالک میں کام کرنے والے قومی بینک کو بھی دن دہاڑے لوٹاگیا ۔ یہاں بھی لٹیرے بائک پر سوار ہوکر آئے تھے۔ انہوں نے اس بارذرا خطرناک رخ اختیار کیا۔ بینک کی لابی میں پہلے ایک بم کا دھماکہ کیا اس کے بعد جب لوگ اوربینک عملہ گھبراکر ایک کونے میں چلا گیا تودوسرا دھماکہ بینک کے اند رکرکے چیسٹ تک پہنچ گئے اور وہاں سے بڑی آسانی کے ساتھ اپناکام کرکے چلے گئے ۔ یہ کوئی معمولی بینک نہیں بلکہ بینک آف بڑودہ تھا،جہاں سکیورٹی کا زبردست بندوبست ہوتاہے لیکن بینک لٹیروں نے یہ ثابت کردیا کہ یوپی میں سکیورٹی کے لچر نظام سے انہیں ذرا بھی ڈر نہیں لگتا۔ یہ تو ہے اترپردیش میں حال میں ہونے والے بڑے واقعات۔ دوسرے واقعات پر بھی اگر نظر ڈالی جائے تو چھوٹے موٹے اوراوسط درجہ کے جرائم سے اخبارات کے صفحات بھرے پڑے ہوتے ہیں۔ ان جرائم میں خود حکمراں جماعت کے لوگ بھی محفوظ نہیں ۔
راجدھانی سے ملحق ضلع سیتاپور ہے وہاں ضلع ہیڈکوارٹرپر بی جے پی کے سینئر لیڈر آلوک آریا کا بڑا مشہور اورشاندار ریستوران  ہے ۔ یکم اگست کی شام وہ کیش کاؤنٹر پر بیٹھے تھے ریستوران کھانے پینے والوں سے بھرا ہوا تھا کہ ایک شخص جو گلے میں ایک رومال لپیٹے ہوئے تھا ۔وہ ریستوران میں داخل ہوا اور بڑے اطمینان سے چلتاہوا کیش کاؤنٹر پر پہنچا۔ اپنی جینس کی جیب سے ریوالور نکالا اورمسلسل تین گولیاں چلاکر آلوک آریا کو گراکر چلاگیا پورے ریستوران میںہی نہیں  بلکہ علاقہ میں سنسنی پھیل گئی اورفائرنگ کرنے والا یہاں سے بھی بائک پر سوار ہوکر فرارہوگیا۔ یہ واقعہ ایسے وقت پیش آیاجب دوروز قبل یہیں کے ایک تاجر کا اغوا ہوا اور اس کی لاش پڑوسی ضلع کی حدود میں ملی ۔اسکے خلاف بھی تاجروں نے بڑا ہنگامہ کیا ،جلوس نکالا اور پولیس انتظامیہ وحکومت کے خلاف نعرے لگائے اس طرح کے واقعات اگر دیکھے جائیں توپوری ریاست میں روزانہ کثیر تعداد میں پیش آتے ہیں۔ اسی لئے پولیس کو اب کھلی چھوٹ مل گئی ہے۔ انکاؤنٹر کرنے کی ۔اس کے باوجودبھی جرائم پر قابو نہیں پایاجارہاہے ایسے میں ہم یہ امید کرلیں کہ ہمارے سرمایہ کار روپئے کی گٹھری لیکر کاروبار کرنے آرہے ہیں تو یہ امید بھی فضول کی ہوگی۔ جہاں بدمعاشوں کے حوصلے اتنے بڑھے ہوئے ہیں کہ وہ پولیس کا ذرا بھی خوف نہ کھاتے ہوں اور دن دہاڑے بینک لوٹنے لگے ہوں۔ ایسے ماحول میں ہم کیاامید کرسکتے ہیں اگر حکومت مذہبی مناقشت کو چھو ڑکر واقعی سب کا ساتھ اورسب کی ترقی کی بات کرے تو شاید ماحول نرم ہو اور سرمایہ کار اس جانب متوجہ ہوں ۔لیکن اس کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے جب ریاست کا سربراہ ہی اپنازیادہ وقت مندراورگائے پر لگاتاہو۔ ایسے میں اس سے انصاف کی توقع فضول ہے۔
 

شیئر: