قوم کی تقدیر بدلتے ہوئے نظر آنے لگی
جو کہتا ہے وہ کرتاہے، یہ نغمہ تو ہم نے برسوں سے سن رکھا ہے، لیکن آج اس کی اہمیت کا جاکر کہیں اندازہ ہوا۔ کرکٹ کے ہیروجنہیں پہلے ٹیسٹ میچ کے بعد لمبے عرصے تک ٹیم سے باہر رکھا گیا کہ آپ کو کرکٹ کھیلنی نہیں آتی، پھر بھی یہ نوجوان لگارہا، ہمت نہیں ہاری، اور بالآخر 1976میں آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں اس نے تیز ترین بولنگ کرکے آسٹریلین ٹیم کے پرخچے اڑادیے، پاکستان نے آسٹریلیا میں زبردست کامیابی حاصل کی۔دوبارہ جب اس نے نمل یونیورسٹی یا اس سے پہلے شوکت خانم ہسپتال کا سوچا تو سب کا یہ جواب تھا، کہ خواب دیکھنا چھوڑ دو۔ قدآور ڈاکٹروں کی ایک 20 رکنی ٹیم نے عمران سے میٹنگ کے دوران اتنے بڑے اسپتال کو ناممکن قرار دے دیا تھا۔ نمل یونیورسٹی کے بارے میں کہا گیا کہ کہیں گائوں میں بھی اعلیٰ تعلیمی درس گاہیں قائم کی جاسکتی ہیں اور پھر وہاں کون پڑھے گا؟ عمران نے سب کی بات سنی، اللہ سے فریاد کی، کامیابی نصیب ہوئی، ناممکن کو ممکن کرکے دکھایا۔
سیاست کے میدان میں 22 سال ٹھوکریں کھاتا رہا، لوگ اس کا مذاق اڑاتے تھے، کہ یہ کرکٹ نہیں ہے، جہاں وکٹیں مل جائیں گے، یا کچھ رنز بنالوگے، لیکن دھن کا پکا یہ انسان اپنی لگن میں لگارہا، قدرت بھی اس کی مدد کرتی ہے جو خود پر اعتماد کرکے آگے بڑھنا چاہے، کامیابیوں نے قدم چومے، تین سال تک عمران نواز شریف کے پیچھے پڑا رہا، اس کا ایک ہی نعرہ تھا تمہیں اڈیالہ جیل بھجوا کر رہوں گا، دھرنے دیے، گلی کوچوں میں صدائیں بلند کیں، اس کی بات لوگوں کے دلوں میں گھر کر گئی کہ واقعی پاکستان دنیا کی دولت سے مالا مال ہوتے ہوئے بھی آج غربت کی منجدھار میں کیوں پھنسا ہوا ہے۔ عمران سے پہلے کسی نے ایسی ہمت اور دلیری نہیں دکھائی تھی، جلسے جلوس کامیاب ہونے شروع ہوئے اور آخری سال تو نواز شریف کو بھی اندازہ ہوچکا تھا کہ ’’ہر فرعون را موسیٰ ‘‘۔ ان کے قدم اُکھڑنے والے ہیں، وہ اور مریم جیل چلے گئے، ابھی تک آہنی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔
الیکشن سے2ہفتے پہلے میں نے گھر والوں سے کہنا شروع کردیا تھا کہ عمران اور اس کے امیدوار جنہیں تحریک انصاف کا ٹکٹ دیا گیا ہے، انہیں کامیابی دستک دے رہی ہے۔ عمران سرخرو ہونے والا ہے۔نواز شریف کے دن گنے جاچکے ہیں، میں صحیح تھا، اس لیے کہ یہ میری دل کی آواز تھی۔لوگ مجھ سے شرطیں ہار گئے اور اب میری بات پر یقین کرنے لگے ہیں کہ ہاں میرے ’’تجزیے‘‘ کافی حد تک صحیح ثابت ہوتے ہیں۔ لیکن حیرت تو مجھے اُس وقت ہوئی جب عمران نے انتخابات میں فتح کے بعد سیدھے سادے الفاظ، یعنی عوامی زبان میں قوم کو مخاطب کیا۔ اپنی ترجیحات بتائیں، دشمنوں نے جی بھر کے تنقید کی، مذاق اُڑایا، ’’چند ہی دنوں میں آٹے دال کا بھائو معلوم ہوجائے گا، سب پتا چل جائے گا، جب مسائل کا پہاڑ سامنے آئے گا۔‘‘ عمران نے سب کچھ خاموشی سے سن لیا، فضول بحث میں پڑنے سے فائدہ نہیں تھا۔ تحمل، بردباری، کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ وزیراعظم کے منصب اعلیٰ پر فائز بھی ہوگئے، کابینہ بھی بنا ڈالی، اس سے ایک روز پہلے قوم سے خطاب میں 70منٹ کی تقریر میں دل کھول کر غریب عوام سے باتیں کیں۔ انہیں بتایا کہ 11سوکینال پر محیط وزیراعظم ہائوس جیسے محل میں رہنے کو قوم کی تذلیل سمجھتا ہوں۔ 80 لمبی چوڑی گاڑیاں، ہیلی کاپٹرز، ہوائی جہاز سب کچھ اور پھر 427ملازمین کی فوج، اخراجات 90کروڑ ماہانہ تک پہنچ چکے تھے، ایک ایسے ملک میں جہاں 50فیصد لوگ دو وقت کی روٹی کو ترستے ہوں، اسے (عمران کو) وہاں رہتے ہوئے شرم آئے گی، ہر ایک مذاق اڑائے گا، وہ تضحیک کا نشانہ بنیں گے، لیکن اس مرد مجاہد نے وزیراعظم ہائوس کے باہر انیکسی میں ملٹری سیکریٹری کا گھر اپنے لئے چنا، 3 بیڈروم اور بس، ملٹری سیکریٹری کسی اور مقام میں شفٹ ہوگئے، سادگی کا نمونہ پیش کردیا گیا۔ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا۔ جو کہتا تھا وہ کردکھایا۔ 80 میں سے 33 گاڑیاں بم اور بلٹ پروف تھیں، جن کی قیمت ڈیڑھ ارب روپے بنتی ہے، وہ سب پہلے کابینہ کی میٹنگ میں نیلامی کے لیے بھیج دی گئیں، خزانے پر زور تو ضرور پڑا ہوگا، لیکن بچت کتنی ہوگی۔
حلف اٹھاتے وقت عمران نے نو قسم کے کھانے کی فہرست کو رد کردیا، غریب ملک و قوم پر ماضی میں برسراقتدار رہنے والے لوگوں کو احساس تک نہیں تھا، صرف چائے اور بسکٹس پر گزارا کیا گیا۔ قائداعظمؒ سے پہلی کابینہ میں جب ان کے اسٹاف نے پوچھا کہ سر چائے یا کافی؟؟ تو بابائے قوم نے حیرت سے استفسار کیا کہ کیا یہ لوگ گھر سے ناشتہ کرکے نہیں آئے، صرف پانی کا گلاس رکھ دیجیے، قوم کا پیسہ لٹانے کے لیے نہیں ہے۔ عمران نے قائداعظمؒ کے بعد دوبارہ اس کی یاد تازہ کردی۔ آفرین ہے ایسی قیادت پر جو خود بھی سادگی اختیار کرے اور قومی خزانے میں بچت کو فروغ دے۔
مدرسے کے بچوں کو جدید تعلیم سے آراستہ کرنا، ڈھائی کروڑ بچوں کو جو تعلیم کے زیور سے محروم ہیں، انہیں اسکولوں میں داخل کرانا، تعلیم کے دروازے ان پر وا کردینا، بیرونی ملکوں میں پاکستانیوں کا سرمایہ ملک میں لگانے کی دعوت دینا اور پھر جو پاکستانی دوسرے ممالک میں جیلوں میں قید ہیں، ان کے کیسز پر نظرثانی کرکے ملک واپس لانا، یہ سب کسی اور ارباب اختیار کی ذہن میں کیوں نہیں آیا۔ وزیراعظم کے دوروں پر 60 کروڑ کا خرچہ، اللہ کی پناہ، عمران خود اگلے تین ماہ پاکستان سے باہر نہیں جائیں گے۔ قوم کا پیسہ بچانا ہے، مثال قائم کرنی ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کچھ ملکوں کا دورہ ضرور کریں گے، ان کا کام ہے یہ، کابینہ کی میٹنگ کے بعد وزیر اطلاعات نے بتایا کہ وزیروں کے بیرون ملک علاج پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ نواز اور مریم پر ECL کی پابندی عائد کردی ہے، تاکہ ملک چھوڑ کر باہر نہ جاسکیں، حساب دیں اپنے کیے کا۔
وزیراعظم عمران نے قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس میں زور دے کر یہ بات کہی کہ میں سب چوروں، ڈاکوئوں کا پیسہ لے کر واپس آئوں گا۔ یہ قومی دولت ہے، لندن فلیٹس کے بارے میں برطانوی حکومت سے بات چیت کی جائے گی کہ یہ ناجائز دولت سے خریدی گئی ہے۔اسے پاکستان کو لوٹا دیا جائے، کئی ایک ٹاسک فورس تو بن ہی گئیں، لیکن پہلے حکم صادرہوا کہ ہر وزیر 13گھنٹے کام کرے گا۔ میں خود 16گھنٹے کام کروں گا۔ ملک کی قسمت سنوارنی ہے، جو قومیں خود پر انحصار کرتی ہیں، وہی سرخرو ہوتی ہیں۔ عمران نے یہ اصول اپنایا، اپنے لوگوں سے پیسے لے کر خزانے کی حالت بہتر بنائی جائے گی، بیرونی قرضے اگر بہت ضروری ہوئے تو احتیاط سے لیے جائیں گے۔ بھیک نہیں مانگی جائے گی۔
اب آپ بتائیں کہ کیا قائداعظمؒ اور قائد ملت کے بعد کوئی ایسا سربراہ مملکت آیا تھا، اگر آیا ہوتا تو آج ملک کی تقدیر کچھ اور ہوتی۔ ایران کے صدر احمدی نژاد، پیرو کے صدر اپنی کٹیا میں رہتے تھے، کوئی عالی شان محل نہیں تعمیر کیے گئے تھے، سوئیڈن کے وزیراعظم کے پاس ڈرائیور بھی نہیں ہوتا، اسے خود اپنی سرکاری گاڑی چلانی پڑتی ہے۔ یہ ہے ترقی پانے کے اصول۔ عیاشی کو خیرباد کرنا پڑے گا۔ جو شاید شروع ہوگیا ہے، اب کوئی بھی وزیراعظم آئے اسے شاندار محلات میں رہنے پر لعن طعن سننی پڑے گی۔ پاکستان ایک نئے دور میں داخل ہوچکا ہے، قوم کی تقدیر بدلتی نظر آتی ہے۔ اللہ کی مہربانیاں چاہئیں بس اور اعلیٰ ہمتی۔