زینت ملک۔جدہ
ولیم پینٹر نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ایک بہت بڑے درخت کا گرنا زیادہ شور برپا کرتا ہے،مہاراجہ کا محل اور قلعے ان جھونپڑیوں سے جلد نظر آجاتے ہیں جو فاصلے کے اعتبار سے ان سے نزدیک تر ہوتی ہیں عظیم شہروں کی بلند فصیلیں دور سے ناظرین کو سلام کرتی ہیں نہ کہ وہ غار جو غریب لوگ اپنے لئے زمین میں کھود لیتے ہیں لیکن ان پر شکوہ چیزوں کو ”جمہوریت“ کا سیلاب اپنے ساتھ بہا لے گیا ہے ۔
ایک دنیا اس بات کی قائل ہے کہ شوکت و سطوت اور شان و شکوہ ہی فن کا موزوں موضوع نہیں بلکہ انسان جیسا بھی ہے، جہاں بھی ہے، اپنی فطرت کی گوناگوں گہرائیوں اور دلکشیوں کے باعث فنکاروں کے لئے نہایت دلچسپ ،پرکشش اور قرار واقعی موضوع بن سکتا ہے۔
محترمہ نعیمہ پاشا ایسی شاعرہ ہیں جو نثر میں بھی اپنے موضوع کو بہترین طور پر پیش کرتی ہیں۔بڑوں میں بڑی باتیں اور بچوں میں
ان کے عمر کے لحاظ سے بہترین مشورے دیتی نظر آتی ہیں ۔والد صاحب سید احمد علی شاہ جعفری آگرہ کے شاعر اور اسکالرز میں شامل رہے۔ انکل میکاش اکبر آبادی بھی شاعر اور اسکالر تھے۔ہندوستان اور پاکستان میں شہرہ تھاوالد چونکہ آئی اے ایس آفیسر تھے اس لئے مختلف جگہوں پرپوسٹنگ ہوتی رہی۔
نعیمہ پاشا جے پور میں پیدا ہوئیں جہاں والد صاحب تعینات تھے۔ وہ ڈی ایم اور کمشنر کے طور پر تعینات تھے ۔نعیمہ جعفری کی عمر 8 سال کی گنتی پوری کرپائی تھی کہ انہوں نے اپنے لکھنے کے سفر کا آغاز کر دیا۔ پہلی کوشش بچوں کہ کہانی اور نظموں سے ہوئی۔14 سال کی عمر میں ایک کہانی لکھی جو اردو کے ایک موقر جریدے میں چھپی اور اس کے بعد یہ سلسلہ جاری ہوگیا چنانچہ شاعری اور نثر کی صورت آج بھی وہ تحاریر اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ لوگوں کو ایک استقامت کا درس دیتی نظر آتی ہیں۔
نعیمہ جعفری شادی کے بعد نعیمہ جعفری پاشا کے نام سے جانی جاتی ہیں ۔ والدہ کا ذکر بہت محبت سے کیا ۔جنہوں نے اپنی تربیت کے ذریعے اپنے بچوں کو وقت کا پابندبنایا۔ یہی وجہ ہے کہ کئی کام باقاعدگی سے ہوتے رہے ۔ انکی والدہ محترمہ نجمہ جعفری بھی ادب و شاعری سے بہت شغف رکھتی تھیں۔ بڑے بھائی پروفیسر حسن جعفری ، علی گڑھ یونیورسٹی کے پرو وائس چانسلر اور راجستھان پبلک سروس کمیشن کے ممبر بھی رہے ۔
نعیمہ پاشا کے شریک سفر پاشاعزیز، جامعہ ملیہ اسلامیہ میں یونیورسٹی انجینیئر رہے۔ پڑھنے لکھنے کا شوق رکھتے ہیں ۔بڑے صاحب زادے نوید پاشا آرکیٹیکٹ ہیں۔ انہوں نے اپنی تعلیم دہلی سے مکمل کی۔ صاحب زادی سیمی پاشا جرنلسٹ ہیں اور ہندوستان کے ایک معروف انگلش نیوز چینل کی اینکر ہیں۔ چھوٹے صاحب زادے نظام پاشا سپریم کورٹ ،دہلی میں ایڈووکیٹ ہیں۔
نعیمہ پاشا کا کہنا ہے کہ سیکھنے کا سفر جاری ہے۔ ان کی پرائمری اسکولنگ جے پور کے کانونٹ میں ہوئی۔ سیکنڈری اسکول سے ماسٹرز تک کی تعلیم علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے مکمل کی۔ پی ایچ ڈی کی ڈگری جامعہ ملیہ اسلامیہ ،دہلی سے حاصل کی ۔پی ایچ ڈی کے تحقیقی مقالے کا عنوان تھا ” فرہنگ کلیات نذیر اکبر آبادی“ جس میں آپ نے ان تمام الفاظ کے معنی واضح کئے جو متروک ہوچکے ہیں ۔لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس زمانے میں بولی جانے والی اردو کے معنی تقریباً بھول ہی چکی ہے۔ اس لئے میرے اس عنوان کو یونیورسٹی کے اساتذہ نے سراہا کہ یہ ایک لغت کی طرح آنے والوں کی اردو زبان میں رہنمائی کرے گی ۔
نعیمہ پاشا صاحبہ سنی ،سید جاگیردار خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ آپ کی کئی تصانیف منظر عام پر آچکی ہیں جن میں دو کتابیں بچوں کے لئے لکھی گئی ہیں۔ ایک ناول ہے جسے شایقین نے پسندیدگی کی سند دی ہے۔ ان کی کہانیوں کے 4 مجموعے شائع ہوچکے ہیں جن میں تنوع اور ندرت ہے۔ ایک آٹو بایوگرافی لکھی ہے اور ایک بایو گرافی انہوں نے خاکوں کی ایک کتاب بھی لکھی ہے۔ فرہنگ کلیات نذیر اکبر بھی ان کی تصنیف ہے ۔ انہیںدو ایوارڈبھی ملے ہیں۔ ایک ایوارڈ اردو اکیڈمی سے اور ایک اترپردیش اردو بزم سے۔
اردوکی مختصر کہانیوں پر ایک ایوارڈ بزم میکاش نے پیش کیا ۔ایک ایوارڈ تنظیم اللسانیات نے دیا ۔ نعیمہ جعفری پاشابزم ادب، علیگڑھ کی ممبر بھی ہیں اور کئی پروگرام آرگنائز کر چکی ہیں۔ لیڈیز لٹریری آرگنائزیشن فار لیڈیز سے بھی وابستہ ہیں ۔دہلی میں آپ اپنے ٹیوشن سینٹر میں بیچلرز اور ماسٹرز کی طالبات کو اردو،انگلش، پولیٹیکل سائنس، سوشیالوجی وغیرہ کی تعلیم دیتی ہیں۔ آپ نے خاص طور پراس وقت کی پرائم منسٹر اندرا گاندھی کو یاد کیا اور اپنی یونیورسٹی کا وہ گروپ فوٹوبھی پیش کیاجو آج ایک یادگار سے کم نہیں ۔