سلیم صافی کے کالمز میں پہلے الزامات کی بوچھاڑ اور اب وزیراعظم کی تعریف؟
وہ ایک مزدور تھے، پڑھ لکھ کر کالم نگار اور پھر اینکر پرسن بن گئے، انکی اس حرکت کو آپ کیا کہیں گے خود ہی فیصلہ کرلیں
صلاح الدین حیدر ۔ کراچی
صحافت ہی بلند و بالا ء لفظ ہے، ظاہرہے کہ اس پیشے کو اپنانے والا بھی چند نمایاں اصولوں کا پابند ہوتاہے، صحافی بننا آسان نہیں، جان جوکھوں کا کام ہے،سچ بولنا ، جھوٹ سے پرہیز ، قوم کی رہنمائی تاکہ ترقی کا سفر بنا رکے جاری و ساری رہے، لیکن آج کل کیا ہوتا ہے۔ لفافہ جرنلزم کی اصطلاح توبہت زمانے سے سننے میںآرہی ہے ۔ اب تو یہ لفظ ہر تیسرے پاکستانی کی زبان پر ہے، سوال یہ ہے کہ آخر ایساکیوں؟ ایسا کیا صحافیوں نے کیا جس سے ایک با عزت پیشہ بدنامی سے داغ دار ہوا۔ بس کیاکیجئے دنیا اسی کا نام ہے، پیسے میں بہت قوت ہے۔ ہماری صفوں میں بہت سے صحافیوں پر آسانی سے یہ لیبل چسپاں کیا جاسکتاہے اور یہ غلط بھی نہیں، ہو سکتاہے کہیں بھول چوک ہوجائے ، لیکن دھوئیں سے چنگاری کا ہونا شاذونادر ہی نا ممکن ہو، کئی ایک صحافیوں پر الزامات لگے، اور ایک زمانہ تھا جب دنیا آنکھ بند کرکے اعتماد کرتی تھی۔آج انہیں شک و شبہ کی نظر سے دیکھتی ہے، سوال کرتی ہے کہ ایک ٹی وی اینکر یا کالم نگار، رپورٹر ، نیوز ایڈیٹر ، حضرات سچ بول رہے ہیں، یا کسی کے کہنے پر الٹے سیدھے جملے ادا کرنے پر معمور ہیں۔مثال دیتے ہوئے برا لگتاہے، کسی ایک کانام لیتے ہوئے جھجک محسوس ہوتی ہے، ضمیر گوارہ نہیں کرتا ،لیکن ماضی قریب کی تاریخ گواہ ہے کہ کچھ اینکر پر ایک بھاری بھرکم شخص سے پیسے اور پلاٹ لینے کا الزام لگا، کچھ لوگ سپریم کورٹ میں صفائی کے لئے چلے گئے ، جن میں ایسے بھی نامور اینکر تھے جو سب سے آگے پیسے لینے والوں کو ننگا کرنے پر تلے ہوئے تھے، لیکن جب سپریم کورٹ نے لسٹ چھاپنی چاہی تو یہی اینکر اور ٹی وی کے لوگ چیف جسٹس کے آگے ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہوگئے کہ ان کے نام پبلک میںنہ آنے پائیں۔ سلیم صافی ایک مزدور تھے، پڑھ لکھ کر کالم نگارپھر ایک نامور ٹی وی چینل کے اینکر پرسن بن گئے۔ہفتے میں ایک پروگرام ’’جرگے ‘‘کے نام سے کرتے ہیں، لیکن سوشل میڈیا پر ان کے کئی نام ہیں۔کہاں تک سچے ہیں کہاں تک مبالغہ آرائی یہ تو میں کہہ نہیں سکتا اس لیے کہ ثبوت کا ہونا ضروری ہے، پھر الزام تراشی میری خصلت نہیں ۔لیکن سلیم صافی الیکشن سے پہلے اور دوران انتخابی مہم عمران خان پر بلا لحاظ الزامات کی بوچھار کرتے تھکتے نہیں تھے، آج وہی عمران کی تعریف کرتے ہیں، آپ اسے کیا کہیں گے، خود ہی فیصلہ کرلیں۔